ایران میں مظاہروں کی کال، سرکاری میڈیا کی خاموشی
21 فروری 2011اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹس نے گزشتہ روز کیے جانے والے مظاہروں میں متعدد افراد کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔ ان ویب سائٹس کے مطابق ایک شخص ہلاک بھی ہوا ہے۔
مظاہروں سے قبل ہی ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے پر تشدد واقعات رونما ہونے کے خدشے سے خبردار کر دیا تھا۔ اتوار کے روز ایران سے حاصل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں بڑی تعداد میں سلامتی کے نگران اداروں کے اہلکاروں اور سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس کی موجودگی کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
مشرقی وسطیٰ کے موضوع پرجرمن ماہر مشائیل لوڈرز کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے، جو ایران میں رونما ہونے والے واقعات کا بہت سنجیدگی سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ’’ میرا اندازہ یہ ہے کہ تہران حکومت ہر حال میں مظاہروں کوکچلنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح اپوزیشن بھی مظاہروں کو جاری رکھنے پر تلی ہوئی ہے۔ مظاہرے حکومت کے لیے مسائل تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں حکومت کافی مظبوط ہے کیونکہ طاقت کے مظہر تمام ادارے حکومت کے قبضے میں ہیں۔‘‘
عینی شاہدین کے مطابق اتوار کی شب تہران سمیت مزید چار شہروں میں زبردست مظاہرے کیے گئے۔ بلاگر مہدی بھی عینی شاہدین میں شامل ہیں۔ ان کے بقول شہر ایک فوجی چھاؤنی کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کے لیے راستوں پر بھی مسلح اہلکار موجود تھے۔ انہوں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح ایک طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر مشائیل لوڈرز کے بقول اس سے قطع نظر کہ تہران حکومت نے سلامتی کے نگران اداروں کو بے پناہ اختیارات دے رکھے ہیں، یہ پالیسی زیادہ عرصے تک کامیاب نہیں رہے گی۔ لوڈرز کے بقول اس صورتحال میں اپوزیشن نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہوا ہے۔ اسی طرح حکومت کے لیے بھی صورتحال آسان نہیں ہے، کیونکہ وہ لیبیا کی طرح اپنے مخالفین کو تہس نہس نہیں کر سکتی۔ متاثر ہونے والوں کی تعداد جتنی بڑھے گی، اپوزیشن تحریک اتنی ہی تیزی سے مضبوط ہو گی۔
مظاہروں اور ہنگامہ آرائی شروع ہونے سے قبل تہران حکومت نےکئی ماہ سے گرفتار دوجرمن صحافیوں کو بھی رہا کر دیا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے ان صحافیوں کو لینے تہران پہنچے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایرانی صدر احمدی نژاد سے ملاقات بھی کی۔ ایرانی ذرائع کے مطابق تہران حکومت نے جرمن صحافیوں کی رہائی کو جرمن وزیر خارجہ کے دورے سے مشروط کیا تھا۔ گیڈو ویسٹر ویلے صحافیوں کو لے کر سرکاری جہاز میں واپس برلن پہنچے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک