ایران فوجی آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے، کلنٹن کا دعویٰ
16 فروری 2010امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورہء قطر کے اختتام پر سعودی عرب روانگی سے پہلے پیر کی شام ان دعووں کی بھی تردید کی کہ امریکہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران ابھی تک ایٹمی ہتھیاروں کے اپنے مشتبہ پروگرام پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس معاملے میں امریکہ بغیر کچھ کئے ہوئے محض تماشائی نہیں بنا رہے گا۔
قطر کے ٹیلی وژن پر براہ راست دکھائے جانے والے مقامی طلبہ سے اپنے خطاب کے دوران ہلیری کلنٹن نے کہا کہ ایران میں محافظین انقلاب کہلانے والے اعلیٰ فوجی دستے بتدریج زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی نقطہ نظر کے مطابق یہ محافظین، ایرانی حکومت، سپریم لیڈر، ریاستی صدر اور ملکی پارلیمان کے مقابلے میں مسلسل اتنے با اثر ہوتے جا رہے ہیں کہ بظاہر ایران ایک فوجی آمریت کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ ہلیری کلنٹں کے بقول اسی لئے امریکہ کی کوشش ہے کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی آئندہ زیادہ سخت پابندیوں میں خاص طور پر انہیں محافظین انقلاب اور ان سے متعلقہ اداروں کو نشانہ بنایا جانا چاہیے۔
بعد ازاں پیر کی رات سعودی دارالحکومت ریاض پہنچنے پر بھی امریکی وزیر خارجہ نے اسی بارے میں بات کی اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ایران میں محافظین انقلاب کا بتدریج حکومت کی جگہ لیتے جانا کوئی مستقل تبدیلی نہ ہو، لیکن امریکہ بہرحال یہ چاہتا ہے کہ ایران میں اختیارات دوبارہ اس مذہبی اور سیاسی قیادت کو ملنے چاہیے جسے ایرانی عوام کے نام پر یہ اختیارات استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
ایران میں محافظین انقلاب نامی مسلح دستوں کا قیام 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد عمل میں آیا تھا تاکہ نئے نظام حکومت کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچایا جا سکے۔ ایک لاکھ 25 ہزار ماہر فوجیوں پر مشتمل ان دستوں کو زمینی، بحری اور فضائی یونٹوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان کی قیادت براہ راست سپریم لیڈر کو جواب دہ ہوتی ہے۔ ایران کے یہ محافظین انقلاب اس ملکی فوج کے علاوہ ہیں جو قریب ساڑھے تین لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہے۔
ریاض میں امریکی وزیر خارجہ کا استقبال کرتے ہوئے ان کے سعودی ہم منصب شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی برادری کی نئی پابندیاں نتیجہ خیز رہیں، تاہم خلیج کی عرب ریاستوں کی خواہش ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعے کا کوئی فوری حل نکالا جانا چاہیے۔
ریاض ہی میں ہلیری کلنٹن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ امریکی صدر باراک اوباما کی ایران سے متعلق حکمت عملی ابھی تک ثمر آور نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ تہران حکومت کی طرف سے عدم تعاون ہے جس کے جواب میں عالمی ادارے کی طرف سے ایران پر چوتھی مرتبہ پابندیوں کا اگلا مرحلہ ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
امریکہ سمیت مغربی دنیا کا الزام ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کے برعکس تہران حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ ان مقاصد میں بجلی کی پیداوار سب سے بڑی ترجیح ہے، تاکہ بعد ازاں ایران اپنے ہاں تیل اور گیس کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ حد تک برآمد کر سکے۔
رپورٹ مقبول ملک
ادارت شادی خان سیف