1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايران سے لوٹنے والے افغان مہاجرين کی تعداد میں نماياں اضافه

شادی خان سیف، کابل
30 اگست 2017

پاکستان سے ریکارڈ تعداد میں افغان مہاجرین کی واپسی کے رواں سلسلے کے ساتھ ساتھ اب ایران سے بهی افغان مہاجرین کی جبری اور رضاکارانه واپسی میں نمایاں اضافه دیکها جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2j3nS
Iran Grenze zu Afghanistan
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh

بین الاقوامی اداره برائے مہاجرین  (IOM) کے تازه ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں برس روزانه کی بنیادوں پر قریب ایک ہزار افغان مہاجر ایران سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کے پاس یا تو ایران میں رہائش کے مکمل قانونی دستاویزات نہیں تھے یا  تہران حکومت نے ان کے قیام میں توسیع نہیں کی تھی۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو ایران اور پھر ترکی کے راستے یورپ جانے کے خواہش مند تھے تاہم  ایرانی سکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کر کے واپس افغانستان روانہ کر دیا۔

جرمنی سے افغانوں کی ملک بدری: کوئی فیصلہ نہ کرنا اچھا فیصلہ

رواں برس پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں کمی متوقع

افغان مہاجرین کی ایک اور کھیپ پاکستان سے وطن پہنچ گئی

افغانستان میں بین الاقوامی اداره برائے مہاجرین کے شعبه معلومات عامه کی افسر ایوا شوئیرر کے بقول یکم جنوری سال 2017 سے اب تک مجموعی طور پر دو لاکھ تیس ہزار پانچ سو آٹھ ایسے افراد کو ایران سے واپس رضاکارنه یا جبری طور پر افغانستان روانہ کیا جاچکا ہے، جن کے پاس وہاں قیام کے لیے قانونی کاغذات نہیں تھے۔

پہلی سانس ہی سے مہاجر، پاکستان میں ایک افغان کی کہانی

قریب چار دہائیوں سے جاری جنگ اور بد امنی کی لہر نے لاکهوں افغان باشندوں کو ملک چهوڑنے پر مجبور کر رکها ہے، جن کی سب سے بڑی تعداد نے پاکستان میں پناه لے رکهی ہے۔

IOM کے اعداد و شمار بتاتے ہیں که رواں برس پاکستان سے واپس افغانستان لوٹنے والے غیر قانونی مہاجرین کی تعداد 83،337 تک پہنچ چکی ہے۔

یاد رہے که دسمبر 2016 میں پاکستان میں قیام پذیر افغان مہاجرین کے قانونی قیام کے خاتمے (جس میں بعد میں توسیع کی گئی) کے بعد سے لاکهوں افغان واپس وطن  لوٹ چکے ہیں۔

افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین کے میڈیا ایڈوائز حفیظ احمدکا کہنا ہےکه پاکستان کے مقابلے میں ایران سے مہاجرین کی واپسی میں ریکارڈ 70 فیصد اضافه دیکها گیا ہے۔ اس وزارت کے مطابق موسم سرما کے آغاز سے قبل اس تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ان کے بقول متعلقه وزارتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک جامع پالیسی تیار کی گئی ہے، جس کی مدد سے مہاجرین کو اپنے ملک میں نئی زندگی شروع کرنے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق افغانستان کے 27 صوبوں میں مہاجرین کے لیے رہائشی پلاٹوں کی مفت تقسیم سمیت دیگر سہولیات کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔

عالمی بینک نے رواں برس افغان حکومت کے ساته 500 ملین ڈالر قرض کا ایک معاہده کیا تھا، جس کے تحت مہاجرین کے مسائل حل کرنے کے منصوبوں کے لیے بهی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تاہم اتنی بڑی تعداد میں افراد کی جنگ زدہ افغانستان آمد نہ صرف کابل حکومت کے لیے ایک امتحان ثابت ہو رہی ہے بلکہ برسوں سے یہاں فلاحی کاموں میں مصروف عالمی اداروں نے بهی اضافی مدد کے لیے صدا بلند کر رکهی ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشته برس اس ضمن میں ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی، جس میں فوری بنیادوں پر کم از کم 152 ملین امریکی ڈالرز کا تقاضاکیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے مطابق قریب ایک ملین افراد (بشمول مہاجرین اور اندرون ملک بے گهر افراد)  بے سر و سامانی کے عالم میں فوری امداد کے منتظر ہیں۔ تجزیه کار محمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که ایران اور پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے تین عمدہ عوامل ہیں۔

محمد عارف کے بقول اوّل تو پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کی اپنے ہاں قیام کی مدت میں توسیع نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کے بعد بہت بڑی تعداد میں مہاجرین نے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی جانب سے استحصال کی شکایات کی ہیں۔ دوئم یہ کہ  افغان حکومت ’خپل وطن - گل وطن‘  (اپنا دیس - پیارا دیس) کے نام سے ایک پروگرام کے تحت افغان مہاجرین کو واپسی کی ترغیب دے رہی ہے اور سوئم اقوام متحدہ کی جانب سے واپس اپنے ملک جانے والے افغان مہاجرین کو ملنے والے وظیفے کا چار سو ڈالر فی فرد تک بلند ہونا ہے۔