1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوپیک کی تیل کی پیداوار میں ممکنہ کمی، فائدہ روس کو ہو گا

مقبول ملک
27 نومبر 2016

تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی یومیہ پیداوار میں ممکنہ کمی کا فائدہ روس کو ہو گا، جس کی اپنی پیداوار پہلے ہی ریکارڈ حد تک زیادہ ہے لیکن جسے عالمی منڈیوں میں بہت کم قیمتوں کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2TKJi
Iran 21. Internationale Erdöl, Erdgas, Petrochemie Messe
تصویر: Isna

اس موضوع پر روسی دارالحکومت ماسکو سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اتوار ستائیس نومبر کو اپنی ایک مفصل رپورٹ میں لکھا ہے کہ روس کا المیہ یہ ہے کہ اس کی تیل کی یومیہ پیداوار تو ریکارڈ حدوں کو چھو رہی ہے لیکن اس کو دستیاب مالی وسائل مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ روس ان ملکوں میں شامل ہے، جو اپنے سالانہ بجٹ کے لیے مجموعی مالی وسائل کا بہت بڑا حصہ تیل اور گیس کی برآمد سے حاصل کرتے ہیں۔

دوسری طرف اوپیک کے رکن ممالک کی کوشش یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی مسلسل بہت کم  قیمتوں کو سنبھالا دینے کے لیے اپنی پیداوار کچھ کم کر دیں کیونکہ اگر رسد کم ہو گی تو طلب زیادہ ہو گی اور یوں قیمتیں بھی بڑھیں گی۔

اوپیک ممالک نے ابھی تک اپنی مجموعی یومیہ پیداوار میں کمی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا، تو اس میں روس کا، جو کہ اوپیک کا رکن نہیں ہے، کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ بلکہ ماسکو کو تو الٹا اس کا فائدہ ہی ہو گا۔ یعنی اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی، تو ماسکو کو برآمدی تیل سے ہونے والی آمدنی بھی بڑھے گی۔

اس تناظر میں ماسکو کی کوشش ہے کہ تیس نومبر آئندہ بدھ کے روز آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اوپیک کے وزرائے تیل کا جو اجلاس ہو گا، اس میں بالآخر یہ طے پا ہی جانا چاہیے کہ یہ تنظیم اپنی تیل کی پیداوار میں کمی کر دے گی۔

Yukos Russland Öl Raffinerie
روس کا شمار دنیا میں تیل برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

روس ویانا میں اپنا یہ مقصد اس لیے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اسی سلسلے میں اوپیک کا اس سال موسم بہار میں دوحہ میں ہونے والا ایک اجلاس ناکام رہا تھا۔ اس اجلاس میں کوئی اتفاق رائے تو نہیں ہو سکا تھا بلکہ رکن ملکوں کے مابین اختلاف رائے مزید کھل کر سامنے آ گیا تھا۔

روس سعودی عرب اور امریکا کی طرح دنیا میں تیل پیدا اور برآمد کرنے والے بہت بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب تو اوپیک کا رکن ہے لیکن روس کی طرح امریکا بھی اس تنظیم میں شامل نہیں ہے۔

ماسکو اب تیل برآمد کرنے والے ’حریف‘ ملکوں کی طرف سے پیداوار میں کمی کا خواہش مند اس لیے بھی ہے کہ ایک تو اس نے گزشتہ دو برسوں کے دوران تیل کی بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتوں کے بہت کم رہنے کی وجہ سے اقتصادی حوالے سے اس کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے اور دوسرے یہ کہ یوکرائن کے تنازعے کے باعث مغربی دنیا کی طرف سے روس کے خلاف عائد کردہ پابندیاں بھی ماسکو کے لیے اقتصادی مشکلات کا باعث بنی ہیں۔

Saudi Arabien Dhahran Öl-Raffinerie
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب کے شہر دہران کی ایک آئل ریفائنریتصویر: picture-alliance/dpa

ان حالات میں  روس کو مالیاتی حوالے سے اپنے لیے زیادہ آمدنی کا امکان اس بات میں نظر آتا ہے کہ اوپیک اگر اپنی پیداوار میں ممکنہ کمی پر اتفاق کر سکتی ہے تو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی کہہ دیا تھا کہ روس، جس کی تیل کی پیداوار اس وقت ریکارڈ حد تک زیادہ ہے، اپنی یومیہ پیداوار میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ زیادہ سے زیادہ وہ اپنی پیداوار کو اس کی موجودہ سطح پر ہی منجمد کر دے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں