1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی انتخابی مہم: ماضی کا جوش و خروش نہيں

3 ستمبر 2012

مريکی صدر باراک اوباما تن دہی سے اپنی انتخاباتی مہم ميں مصروف ہيں۔ وہ اب بھی اپنے حريف رومنی پر برتری رکھتے ہيں ليکن اس مرتبہ کی انتخابی مہم میں چار سال پہلے والا جوش و خروش ديکھنے ميں نہيں آتا۔

https://p.dw.com/p/162fG
تصویر: Reuters

سن 2008 ميں ڈيموکريٹک پارٹی کے صدارتی اميد وار باراک اوباما نے Yes we can کے نعرے سے اپنی انتخابی مہم کو ہوا دی تھی۔ ان کے انتخابی جلسوں ميں بے پناہ جوش و خروش ديکھا جاتا تھا۔ ووٹروں کو اوباما سے اميد تھی کو وہ امريکہ ميں واقعی تبديلياں لائيں گے۔

ليکن چار سال بعد اس اميد پر اوس پڑ گئی ہے۔ صدر اوباما کو يہ تسليم کرنا پڑ رہا ہے: ’’ہميں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے مختلف رياستوں کے دورے کر رہے ہيں۔ رياست آيووا اس دوڑ ميں ايک ’ميدان جنگ‘ بن گئی ہے جہاں اوباما اور اُن کے ريپبلکن حريف مٹ رومنی ميں تقريباً برابر کا مقابلہ ہے۔

اوباما اور ميشيل اوباما
اوباما اور ميشيل اوباماتصویر: picture-alliance/dpa

آيو وا کے شہر مارشل ٹاؤن کے ايک اسکول ميں اپنے انتخابی جلسے ميں تقرير کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا: ’’ميں نے 2008ء ہی ميں کہا تھا کہ ميں خاميوں سے پاک نہيں ہوں اور ميں ايسا صدر ہوں گا بھی نہيں۔ ليکن ميں روزانہ ووٹروں کے مسائل کے حل کے ليے کام کروں گا۔‘‘

ان کاموں کی فہرست طويل ہے جنہيں صدر اوباما انجام دينا چاہتے ہيں۔ ان ميں ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ امريکہ کے ليے بے روزگاری کی آٹھ فيصد شرح خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور 2009ء ميں اوباما حکومت کے اربوں ڈالر کی رياستی امداد کے باوجود امريکی معيشت بہت سست رفتاری سے بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تارکين وطن سے متعلق قوانين يا مالی شعبے ميں اصلاح کے قوانين يا تو ادھورے ہی رہ گئے ہيں اور يا ان پر اب تک نيم دلی سے عمل کيا گيا ہے۔

اوباما کے ريپبليکن حريف مٹ رومنی
اوباما کے ريپبليکن حريف مٹ رومنیتصویر: rtr

اوباما حکومت نے نظام صحت ميں جن اصلاحات پر توجہ مرکوز کی تھی وہ مارچ 2010 ء ميں نافذ ہو گئيں۔ ليکن ان کوکانگريس سے منظور کرانا اس ليے دشوار ہو گيا کيونکہ جنوری 2010 ء ميں ڈيموکريٹک پارٹی کے ٹيڈ کينيڈی کے انتقال کے بعد سينيٹ کی خالی ہونے والی نشست پر ريپبلکن پارٹی اسکاٹ براؤن نے حاصل کر لی اور اسی سال نومبر کے کانگريس کے انتخابات ميں بھی ریپبلکن پارٹی کو اپنی اکثريت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس کے بعد کانگريس اور اوباما حکومت کے درميان طاقت کی جو شديد کشمکش شروع ہوئی اُس نے 2011 ء ميں ملک کو ادائيگی کے ناقابل ہونے کی حد تک پہنچا ديا۔

ليکن اوباما نظام صحت ميں اصلاحات، امريکی آٹوموبائل صنعت کو بچانے اور عراق سے فوج واپس بلا لينے ميں کامياب ہوئے ہيں۔ سب سے زيادہ اہميت اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہے، جس کا وہ فخر سے حوالہ ديتے ہيں۔

ليکن ان کے گرد چار سال پہلے کی وہ چمک دمک نہيں ہے جس ميں Hope اور Change کے نعروں کی گونج تھی بلکہ اب صرف Forward کا سادہ نعرہ سننے ميں آتا ہے۔

C.Bergmann,sas/R.Mudge,km