اوباما نے صدارتی امیدوار کی نامزدگی قبول کر لی
7 ستمبر 2012امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر شارلٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن کے تیسرے اور آخری روز صدر باراک اوباما نے پارٹی کی جانب سے دوسری مدت صدارت کے لیے بطور امیدوار نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے امریکی عوام سے کہا کہ انہیں کئی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کے لیے مزید چار سال درکار ہیں۔ نامزدگی منظور کرتے ہوئے اوباما کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن دو امیدواروں میں سے ایک کو چننے کا نہیں بلکہ یہ معاملہ امریکا کے لیے دو میں سے ایک راستے کے انتخاب کا ہے۔ اوباما کے مطابق جس راستے کا انتخاب کیا جا چکا ہے وہ یقینی طور پر مشکل ضرور ہے لیکن بہتری کی جانب جاتا ہے۔
اپنی تقریر میں اوباما نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار مِٹ رومنی کے انتخابی مہم کے ایجنڈے پر بھی نکات اٹھائے۔ اوباما نے رومنی کے برطانیہ کے بارے بیان کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایک مضبوط اتحادی کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے رومنی نے بتا دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی سفارتکاری کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اوباما کا مزید کہنا تھا کہ رومنی اور نائب صدر کے لیے ان کے امیدوارکے لیے خارجہ پالیسی کسی نئی شے کا نام ہے اور ان کے منتخب ہونے کے بعد بیرونی دنیا میں امریکا کا تشخص خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اپنی تقریر میں اوباما نے اپنی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات میں حاصل کامیابیوں کا بڑے پر زور انداز میں تذکرہ کیا۔ اوباما نے بار بار یہ کہا کہ نئے چیلنجز اور نئے خطرات کے تناظر میں آپ اُس قیادت کا انتخاب کریں جو قابل اعتبار اور پہلے سے آزمائی ہوئی ہے۔
صدارتی امیدوار کی نامزدگی کو قبول کرنے کے بعد پالیسی خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا کو اب بھی اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ اس معاشی دباؤ سے آگاہ ہے جو امریکی قوم برداشت کر رہی ہے۔ اوباما کے مطابق معاشی حالات میں بہتری وقت کے ساتھ پیدا ہو گی۔ اوباما نے تقریر میں کہا کہ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں، ذمہ داریوں کی تقسیم اور پرزور تجربات کی ضرورت ہے۔ اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گزشتہ چار برسوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
اوباما کی تقریر کے دوران کنونشن سینٹر میں موجود پندرہ ہزار افراد نے بار بار پرزور انداز میں تالیاں بجا کر ان کی تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اوباما کی تقریر سننے والے حاضرین میں پارٹی کے چھ ہزار ڈیلیگیٹس بھی شامل تھے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں بہت سے حوالوں سے اوباما کی تقریر مجموعی طور پر مستقبل کے لیے امید، وعدوں اور مثبت تبدیلی پر مرکوز تھی۔ چار سال قبل بھی انہوں نے ایسی تبدیلی اور وعدوں کو پیش کیا تھا۔ تب بھی حقیقی طور پر ان کو کئی ناممکنات کا سامنا تھا اور آج بھی خاص طور پر معاشی حالات بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ امریکی اقتصادیات کساد بازاری کی شدت سے ابھی تک پوری طرح نکل نہیں پائی ہے۔
ai/ah(AFP, AP)