1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انڈونیشیا میں شہری کو موت کی سزا، اسلام آباد حکومت کچھ کرے‘

عاطف توقیر25 جولائی 2016

انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انڈونیشیا میں اپنے ایک شہری کو منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت کو رکوانے کی کوشش کرے۔

https://p.dw.com/p/1JVZC
Indonesien Todesstrafe Drogenschmuggeler
تصویر: R. GacadAFP/Getty Images

انڈونیشیا میں قید 52 سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو پیر 25 جولائی کے روز جاوا جزیرے پر ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا، جہاں اسے سزائے موت دے دی جائے گی۔ انڈونیشیا کے حکام نے پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد ہر صورت میں کیا جائے گا۔ اس مجرم کے اہل خانہ کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ جلد ہی ذوالفقار علی کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جاوا جزیرے میں نوساکامبانگن نامی جیل میں موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اب ذوالفقار علی کو اسی جیل میں پہنچا دیا گیا ہے۔

حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے علی پر جرم ثابت ہونے اور پوری عدالتی کارروائی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ علی سے اعتراف جرم کے لیے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس پر چلایا جانے والا مقدمہ شفاف نہیں تھا۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان (JPP) نامی غیر سرکاری تنظیم کے قانونی امور کی ڈائریکٹر مریم حق کے مطابق، ’’اسے بے انتہا تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بنیادی قانونی حقوق مہیا نہیں کیے گئے۔ علی کے مجرم ہونے کے مقابلے میں بے گناہ ہونے سے متعلق زیادہ مضبوط شواہد اور دلائل موجود ہیں۔ اب وقت کے کہ صدر پاکستان اپنے مسلم اتحادی ملک سے اپیل کریں اور ایک معصوم پاکستانی کی جان بچائیں۔‘‘

اس سے قبل جکارتہ میں تعینات پاکستان کے نائب سفیر سید زاہد رضا نے کہا، ’’پاکستانی ایمبیسی نے اعلیٰ حکام کو ہر طرح سے بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک شفاف مقدمہ نہیں تھا۔‘‘

Jakarta Andrew Chan Myuran Sukumaran Australien Gefangene Todesstrafe
متعدد غیرملکیوں کو سزائے موت دی جا چکی ہےتصویر: Reuters/Murdani Usman

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ علی کو سن 2005ء میں پہلی مرتبہ ہیروئن رکھنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم اس سے اعتراف جرم کے لیے اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق چھ بچوں کے باپ علی کو 21 نومبر 2004ء کو مغربی جاوا صوبے میں اس کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا اور اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس کے پاس تین سو گرام ہیروئن تھی۔ ایمنسٹی کے مطابق گرفتاری کے بعد قریب ایک ماہ تک اسے کسی وکیل سے رابطہ نہیں کرنے دیا گیا۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش اسے لاتیں اور گھونسے مارے گئے اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور اس پر عقوبت کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب اس سے ایک بیان حلفی پر دستخط نہ کرا لیے گئے۔

ایمنسٹی کے بیان کے مطابق اس تشدد کی وجہ سے بعد میں علی کو معدے اور گردوں کے آپریشن سے بھی گزرنا پڑا۔ ’’اس مقدے کے دوران علی نے ججوں کو کئی مرتبہ اس تشدد کے بارے میں بتایا ، مگر ججوں نے اس کے بیان حلفی کو اس کا اعتراف جرم ہی سمجھا۔ اس سلسلے میں اس پر عائد کیے گئے الزامات کی کوئی آزادانہ تفتیش نہیں کرائی گئی۔‘‘

گزشتہ برس انڈونیشیا نے 14 افراد کو منشیات سے متعلق جرائم میں دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کیا اور ان افراد میں زیادہ تر غیرملکی شہری تھے۔