انسانی حقوق کے لیے اٹھنے والی ایک اور آواز دم توڑ گئی
اجوکا تھیٹر کی بانی، ہدایت کار اور ڈرامہ نگار مدیحہ گوہر بدھ کی صبح لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصے سے سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں۔
جمعرات کو سپرد خاک کیا جائے گا
مدیحہ گوہر کے اہل خانہ کے مطابق انہیں جمعرات کو سپرد خاک کیا جائے گا۔ مدیحہ گوہر کو نہ صرف اجوکا تھیٹر کے باعث جانا جاتا تھا بلکہ انہوں نے خواتین کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بہت کام کیا۔
تھیٹر کے ذریعے تشدد کو روکنے کی کوشش
گوہر کو یاد کرتے ہوئے بھارتی صحافی راج دیپ سردیسائی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’مدیحہ گوہر نے تھیٹر کے ذریعے تشدد کو روکنے اور امن پھیلانے کی بات کی۔ اب وہ ہم میں نہیں رہیں۔‘‘
مدیحہ ایک انتہائی باوقار خاتون
گوہر کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے حسین اقبال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ مدیحہ کا شمار پاکستان کے مایا ناز فنکاروں میں ہوتا ہے۔ میں ان کے ساتھ ٹی وی ڈرامہ ’کل‘ میں کام کر چکا ہوں جس کے ہدایت کار جمال شاہ تھے۔ مدیحہ ایک انتہائی باوقار خاتون اور اداکارہ تھیں۔‘‘
سماجی تھیٹر کی تحریک کا آغاز
پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی رہنما نفیسہ شاہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ مدیحہ گوہر ایک روشن خیال مصورہ تھیں۔ انہوں نےانسانی حقوق اور آزادیء رائے کے حق کے لیے آرٹ کو باخوبی استعمال کیا۔ ان کی بدولت ملک میں سماجی تھیٹر کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کی ساتھی
وکیل اور سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کی بیٹی منیزے جہانگیر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’تھیٹر کی دنیا کی ایک بڑی شخصیت اب نہیں رہی۔ ہم نے انسانی حقوق کی ایک بہادر علمبرادر کو کھو دیا ہے۔ وہ میری والدہ کے ساتھ جیل گئیں۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بات چیت کی، انہوں نےمعاشرے میں برداشت پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘‘
پرنس کلاؤس ایوارڈ
اجوکا تھیٹر دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ 2006ء میں وہ پہلی پاکستانی بنيں، جنہیں انتہائی معتبر پرنس کلاؤس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک بہادر کارکن
مدیحہ گوہر کو قریب سے جاننے والے رضا رومی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ مدیحہ ایک بے مثال فنکارہ تھیں۔ وہ ایک بہت بہادر خاتون تھیں۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں انہوں نے اجوکا تھیٹر کا آغاز کیا اور وہ آج پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔‘‘