1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے 50 برس

مقبول ملک25 فروری 2009

فرانسیسی شہر شٹراس برگ میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے قیام کے اس ہفتہ ٹھیک 50 برس پورے ہو گئے۔ یہ ادارہ دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد عدالت ہےجو یورپی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کےتحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/H1Bb
انسانی حقوق کی یورپی عدالتتصویر: AP

انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا قیام 23 فروری 1959 کے روز عمل میں آیا تھا۔ یہ عدالت دنیا بھر میں آج بھی اس لئے اپنی نوعیت کا سب سے منفرد ادارہ ہے کہ یہ یورپی ملکوں کی قومی عدالتوں سے بالا تر ہے۔ حالانکہ یہ ایوان عدل کوئی عالمی عدالت نہیں ہے پھر بھی وہاں انفرادی طور پر کوئی بھی یورپی شہری اس صورت میں اپنے یا کسی دوسرے ملک کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ے جب وہ یہ محسوس کرے کہ اسے اپنے ہی وطن کی عدالتوں میں انصاف نہیں مل سکا۔

مسلسل کامیابی کی نصف صدی

یورپی عدالت انصاف میں اس وقت یورپ کے 47 ملکوں کے شہریوں کے دائر کردہ زیر سماعت یا اپنی سماعت کے منتظر مقدمات کی تعداد قریب ایک لاکھ بنتی ہے۔ اسی لئے اس عدالت کے سینکڑوں ذیلی دفاتر میں ہر جگہ قانونی دستاویزات کا ایک انبار دیکھنے میں آتا ہے۔ اس عدالت کی جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جج ریناٹے ژیگر کہتی ہیں کہ یہ صرف ایک منفی صورت حال ہی نہیں ہے۔

EU-Gipfel 2005 EU-Flagge spiegelt sich in Glasfassade
یورپی یونین کا پرچمتصویر: AP

" یہ دراصل ایک مثبت صورت حال کی علامت ہے۔ ہمارے لئے ظاہر ہے کہ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ ہے کہ ہم بہت زیادہ بوجھ کا شکار ہیں۔ لیکن اس وجہ سے کسی شہری کے خلاف یہ شکایت بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے حقوق کا تحفط کرنے کی کوشش کیوں کررہا ہے، خاص کر ایسے حالات میں جب وہ سنجیدگی سے یہ سوچتا ہو کہ اس کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔"

حصول انصاف کا آخری راستہ

یورپ کے تمام 800 ملین شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب بھی ضرورت محسوس کریں، اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ ان شہریوں کو اگر کہیں سے بھی انصاف نہ ملا ہو تو اکثر ان کے لئے شٹراس برگ کی یہ عدالت ہی آخری راستہ ثابت ہو تی ہے۔

EU Parlament in Straßburg Erweiterung Flaggen
یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہےتصویر: AP

شٹراس برگ کی یہ عدالت جس کسی بھی مقدمے میں کوئی فیصلہ سناتی ہےتو اس کی بنیاد ٹھوس شواہد بنتے ہیں۔ اس عدالت کے تقریبا سارے ہی یورپی ملکوں میں قائم کل 400 ذیلی دفاتر میں 600 سے زائد کل وقتی اہلکار اس کوشش میں رہتے ہیں کہ یورپ میں قطب شمالی سے لے کر ترکی میں آبنائے باسفورس تک جو کوئی بھی اپنے لئے انصاف کا طلب گار ہو، اسے ناامیدی نہ ہو۔ جغرافیائی حوالے سے یہی دنیا میں اپنی نوعیت کی اس واحد عدالت کا وہ سب سے بڑا وعدہ ہے جو اس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔

مجرم ثابت ہونے تک معصوم

یہ عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے نام پر ایسے افراد کی مدد بھی کرتی ہے جو خود انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا سبب بنے ہوں۔ مثلا کئی زیر حراست مبینہ انتہا پسند، ماضی کے کارلوس جیسے مطلوب دہشت گرد یا پھر کردوں کی ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسند رہنما عبداللہ اوئچلان ، ان سب نے جب اس عدالت میں یہ شکایت کی کہ انہیں غیر انسانی حالات میں قید میں رکھا جارہا تھا تو ان کی مدد بھی اسی عدالت نے کی تھی۔

Europäischer Gerichtshof für Menschenrechte in Straßburg
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کی عمارت کا ایک اور منظرتصویر: AP

شٹراس برگ کی اس عدالت کی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خاتون جج ریناٹے ژیگرکہتی ہیں: "اس عدالت کا قیام اس مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا کہ یورپی ملکوں میں قومی محکموں اور عدالتوں کی کارکردگی کی اس حوالے سے نگرانی کی جاسکے کہ آیا وہ انسانی حقوق کے قانونی معیارات کا احترام کرتی ہیں یا نہیں۔ یہ عدالت ہر مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اس امر کا خاص دھیان رکھتی ہے۔ مثلا ملزم چاہے کوئی مبینہ قاتل ہی کیوں نہ ہو، اس کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اس کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل طور پر منصفانہ ہو۔"

جنگی متاثرین کے لئے انصاف

لیکن شٹراس برگ کی اس عدالت میں ایسے مقدمات ہر روز دیکھنے میں نہیں آتے جن میں کسی زیر حراست ملزم نے اپنے ساتھ غیر انسانی رویئے کی شکایت کی ہو۔ اس عدالت میں زیر سماعت مقدمات زیادہ تر چیچنیہ کی جنگ کے متاثرین کی اپیلیں ہوتی ہیں یا پھر ترکی میں اپوزیشن کے ایسے کارکنوں کی درخواستیں جنہیں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیلوں میں رکھا گیا ہو۔ اس کے علاوہ تشدد کا نشانہ بننے والے یورپی شہری، وہ جنہیں ہتک عزت کا سامنا رہا ہو یا پھر وہ صحافی جنہیں جبری طور پر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی ہو، انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں میں ہر شعبہ زندگی کے شہری شامل ہوتے ہیں۔

جنوبی اوسیتیا اور جارجیا کی جنگ

ان دنوں اس عدالت میں سب سے زیادہ مقدمات دائرکرنے والوں میں جنوبی اوسیتیا کے شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ 2008 میں لڑی جانے والی جارجیا کی جنگ ہے۔ یہ شہری اپنے مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت میں جو بیانات دیتے ہیں ان میں اکثر جنگی تباہ کاریوں کی پریشان کن تفصیلات بھی سننے کو ملتی ہیں اور کبھی کبھی ان تباہ کاریوں سے متعلق بے جا پروپیگینڈا بھی۔

EU Erweiterung Debatte in Straßburg
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلوں پر یونین کے تمام رکن ممالک رضاکارانہ طور پر عملدرآمد کرتے ہیںتصویر: AP

جنوبی اوسیتیا کی ایک خاتون نے ایسے ہی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ابھی حال ہی میں اس عدالت کو بتایا: "جب یہ سب کچھ ہوا، میں وہیں پر تھی۔ میرے بچے بھی وہیں تھے۔ ہم نے اپنے ہی شہر میں ایسی خواتین کی لاشیں بھی دیکھیں جن کے سر تن سے جدا کردیئے گئے تھے۔ ایسے مہاجرین بھی جن کو جارجیا کے دستوں نے ٹینکوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ مجھے اس جنگ کے بارے میں ہر بات کا علم ہے۔"

عدالتی ذمہ داریوں کی قانونی حدود

ایسے بیانات سنتے ہوئے انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے سربراہ ژاں پال کوستاکو محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی ذمہ داریوں کی قانونی حدود تک جا پہنچے ہوں۔ وہ کہتے ہیں: "انسانی حقوق کی اس عدالت کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ جنگ یا امن کے بارے میں کوئی فیصلہ سنائے۔ ظاہر ہے کہ انسانی حقوق کے احترام اور پرامن حالات کا آپس میں گہرا تعلق ہے لیکن جنگ یا مسلح تنازعات کے سلسلے میں یہ عدالت کوئی سیاسی فیصلے نہیں سنا سکتی۔"

عدالتی فیصلوں پر رضاکارانہ عمل درآمد

شٹراس برگ کی اس عدالت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار یا ایسے اختیارات نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔ اس کے باوجود اس عدالت کے ججوں کے ہر فیصلے کا یورپی کونسل میں شامل ہر ملک احترام کرتا ہے اور اگر سزا کے طور پر جرمانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہ بھی بلاتاخیر ادا کردیا جاتا ہے۔

اس نقطہ نظر سے یورپ میں انسانی حقوق کی اپنی ہی ایک ناقابل تردید اہمیت ہے۔ یورپی شہریوں کو اکثر ان کے ان حقوق سے محروم نہیں رکھا جاتا لیکن اگر ایسا ہوبھی تو وہ اپنے یہی حقوق عدالت کے ذریعے حاصل کرلیتے ہیں۔

سالانہ بجٹ 50 ملین یورو

EU-Flaggen in Straßburg
یورپی یونین میں شامل ممالک کے چھنڈےتصویر: AP

یورپی کونسل میں کل 47 ریاستیں شامل ہیں اور شٹراس برگ کی یورپی عدالت کے ججوں کی تعداد بھی 47 ہے۔ اس لئے کہ اس عدالت میں کونسل کے رکن ہر ملک سے ایک ایک جج کو نمائندگی حاصل ہے۔ اس عدالت کا سالانہ بجٹ 50 ملین یورو بنتا ہے۔ 2008 کے دوران شٹراس برگ میں ججوں نے جن مقدمات میں حتمی فیصلے سنائے ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد رہی۔ گذشتہ برس اسی عدالت میں 50 ہزارکے قریب جو نئی اپیلیں دائر کی گئیں ان میں سے 57 فیصد صرف چار یورپی ملکوں کے شہریوں نے دائر کی تھیں۔ یہ ملک تھے روس، ترکی، رومانیہ اور یوکرائین۔

یورپ کے لئے اہمیت

یورپ میں انسانی حقوق کی یہ عدالت کتنی اہم ہے، اس کا اندازہ یورپی یونین کے اس بلاک میں شمولیت کے خواہش مند ملکوں کے ساتھ ابتدائی مذاکرات شروع کرنے سے پہلے کے طریقہ کار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ رکنیت کی خواہش مند کسی بھی ریاست کے ساتھ ایسے مذاکرات شروع کرنے سے قبل یورپی یونین پہلے یورپی کونسل، اور یورپی کونسل کے ذریعے اس یورپی عدالت سے یہ دریافت کرتی ہے کہ متعلقہ ملک میں انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال کیسی ہے۔ اگر اس عدالت اور یورپی کونسل کو کوئی اعتراض نہ ہو تو ہی یورپی یونین متعلقہ ریاست کو رکنیت کی امیدوار کا درجہ دیتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ٹھوس مذاکرات شروع کئے جاتے ہیں جو کئی سال تک جاری رہتے ہیں۔