امریکی ڈیموکریٹس نے دوسری مرتبہ تاریخ رقم کر دی
27 جولائی 2016سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے 2008 ء میں بھی امریکی صدارتی امیداور بننے کی کوشش کی تھی تاہم وہ موجودہ صدر باراک اوباما سے شکست کھا گئی تھیں۔ تاہم اس مرتبہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنوینشن میں ہلیری کلنٹن کی نامزدگی ایک رسمی سا اعلان تھا کیونکہ برنی سینڈرز گزشتہ روز ہی کلنٹن کے مقابلے میں دستبردار ہو چکے تھے۔ اس موقع پر کلنٹن نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اگر باہر کوئی چھوٹی سے بچی دیر سے سو کر اٹھی ہے، تو میں اسے بتانا چاہوں گی کہ میں امریکا کی پہلی خاتون صدر بن سکتی ہوں اور اب تم میں سے کوئی بھی اس منصب پر پہنچ سکتا ہے۔‘‘
اس نامزدگی کے حوالے سے مختلف مندوبین نے واضح کیا کہ کسی خاتون کا صدارتی امیدوار بننا امریکا کی 240 سالہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1920ء میں امریکی آئین میں انیسویں ترمیم کی توثیق کے بعد ہی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔
ہلیری کلنٹن کے خاوند اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہلیری صدر بن جاتی ہیں تو وہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی کے لیے ایک بڑا محرک ثابت ہوں گی، ’’ہلیری مواقع استعمال کرنے اور ہمیں درپیش خطرات کو کم کرنے کی اہل ہیں اور جہاں تک تبدیلی لانے کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ ہلیری کو اس میں ملکہ حاصل ہے۔‘‘ ہلیری کلنٹن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ صدر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تنخواہوں میں عدم مساوات کو ختم کریں گی، اسلحہ رکھنے کے ملکی قوانین کو سخت تر بنائیں گی اور وال اسٹریٹ کے اختیارات کو محدود کریں گی۔ اس موقع پر انہوں نے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے انہتر سالہ حریف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ’اوول آفس‘ میں بیٹھنے کے لیے انتہائی نامناسب ہیں۔
برنی سینڈرز ہلیری کلنٹن کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں لیکن ان کے کچھ حامی اس فیصلے پر برہم بھی ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ان ناراض کارکنوں نے فلاڈیلفیا میں پارٹی قیادت کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ اس مظاہرے میں ہزاروں افراد شامل تھے اور ان میں سے زیادہ تر سینڈرز کے چاہنے والے اور افریقی نژاد امریکی شہریوں کے حق میں چلائی جانے والی مہم ’بلیک لائیوز مَیٹر‘ کے سرگرم کارکن تھے۔ صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی مہم کے دوران کلنٹن کو2,842 ووٹ ملے جبکہ سینڈرز کو 1,865 پارٹی مندوبین کی حمایت حاصل ہوئی۔