امریکی صدر باراک اوباما کا دورہ یورپ
30 مارچ 2009اس دورے کے دوران امریکی صدر باراک اوباما لندن میں جی بیس سمٹ میں شرکت کے علاوہ یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ بھی جائیں گے اور نیٹو سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔
صدارتی عہدہ سبھالتے ہی گوانتا نامو جیل کی بندش کا فیصلہ، ماحولیاتی تحفظ اور عالمی درجہ حرارت میں کمی کو روکنے کے لئے مزید اقدامات اور سابق امریکی صدر بش کے طریقہ سفارت کاری کو بدلنے سے باراک اوباما نے عالمی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ بالخصوص یورپی ممالک نے اوباما کے ان تمام فیصلوں کو تہہ دل سےسراہا۔ اوباما کی کوشش ہو گی کہ عالمی سطح پربننے والا ان کا یہ تصور قائم رہے۔
لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس طرح اوباما نے صدارتی انتخابات سے قبل اور صدر بننے کے فوری بعد جو اقدامات اٹھائے ہیں، وہ ان میں تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب رہ سکیں گے یا نہیں۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اوباما کا اصل امتحان ان کے دور صدارت کا ہنی مون یا ابتدائی دور گزرنے کے بعد شروع ہوگا۔ عالمی مالیاتی بحران کے بیچ ان کا اگلا دورہ یورپ بہت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ جی بیس سمٹ کے دوران باراک اوباما کی کوشش ہو گی کہ وہ دیگر ممالک پر نہ صرف واضح کریں گے کہ وہ ان کا موقف سننے کے لئے تیار ہیں بلکہ وہ کئی محاذوں پر اپنے اتحادیوں کی حمایت بھی چاہیں گے۔
یورپی ممالک نے اوباما انتظامیہ کی عراق جنگ سے متعلق نئی پالیسی اور گوانتا نامو جیل کی بندش کے اعلان کے علاوہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کے اعلان کو بھی بہت سراہا ہے۔
دوسری طرف امریکی عوام جنہوں نے اوباما کو ایک بھاری مینڈیٹ دے کر منتخب کیا ہے وہ بھی دنیا کے ساتھ امریکہ کے بہتر تعلقات کے علاوہ امریکی معیشت میں واضح بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
Center for Strategic and International Studies سے منسلک خارجہ پالیسی کی ماہر سارہ مینڈلسن کا کہنا ہے کہ اوباما کے لئے سب سے بڑا چلینج یہ ہے کہ وہ کس طرح یورپی ممالک پر زور ڈالتےہیں کہ وہ عالمی اقتصادی بحران کے خاتمے کے لئے مزید امدادی پیکیج متعارف کرائے، کیونکہ یورپی ممالک بھی اس وقت اس بحران کی زد میں ہیں اور انہوں نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ وہ مزید ریاستی امدادی اقدامات کے حق میں نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق دواپریل کے روز لندن میں شروع ہونے والے جی بیس ممالک کی سمٹ کے دوران اگراس معاملے پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو وہ کوئی عجیب بات نہیں ہو گی۔
اس سمٹ کے دوران ہی باراک اوباما ، چینی صدر ہوجن تاؤ اور روسی صدر دیمتری میدویدف سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کریں گے جو عالمی منظر نامے پر بہت اہم سمجھی جا رہی ہیں۔
اسی طرح فرانس اور جرمنی کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی نیٹو سمٹ میں بھی شدید بحث کے امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مغربی دفاعی اتحاد کے اس سربراہی اجلاس میں صدر اوباما متوقع طور پر افغانستان میں جاری جنگ کے لئے مزید مدد کے لئے بھی کہیں گے۔
تاہم کئی مسائل پر پالیسی اختلافات کے باوجود امریکی صدر کے دورہ یورپ پر والہانہ استقبال کی توقع کی جاسکتی ہے۔ صدر اوباما اپنے اس دورے کے دوران پراگ میں ہونے والی یورپی یونین کی سمٹ میں شرکت کے علاوہ ترکی بھی جائیں گے۔ ان کے دورہ ترکی کو مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری کے حوالے سے ایک اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔