1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدارتی مہم میں خارجہ پالیسی کا کردار

24 ستمبر 2012

امریکا میں 6 نومبر کو صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار مِٹ رومنی نے اپنی انتخابی مہم کی تیاریوں کے دوران کہا تھا کہ وہ موجودہ صدر باراک اوباما کے مقابلے پر ایک نئی خارجہ پالیسی متعارف کروائیں گے۔

https://p.dw.com/p/16DIl
تصویر: AP

رومنی کا کہنا تھا کہ وہ ایک ’واضح اور پُر عزم‘ انداز کے ساتھ عالمی اسٹیج پر نمودار ہوتے ہوئے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو اگلی صدی میں لے کر جائیں گے، جو اُن کے بقول ایک ’امریکی صدی‘ ہو گی۔ رومنی کے اس بیان کے مخاطب وہ امریکی ہیں، جو اپنے ملک کو بدستور دنیا کا اہم ترین ملک تصور کرتے ہیں تاہم دس برسوں کی جنگ اور اقتصادی بحران کے باعث اس ملک کا اثر و رسوخ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ ’شکاگو کونسل آن گلوبل افیئرز‘ کے رواں مہینے کے ایک سروے کے مطابق آج کل صرف چوبیس فیصد امریکی شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک ایک عشرے پہلے کے مقابلے میں عالمی طاقت کے طور پر ’اور بھی زیادہ اہم‘ کردار ادا کر رہا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے خارجہ سیاسی امور کے امریکی ماہر اسٹیفن والٹ نے بتایا:’’جب اوباما صدر منتخب ہوئے تو عام خیال یہی تھا کہ امریکا کچھ علاقوں میں حد سے زیادہ سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا سب سے نمایاں اظہار عراق سے فوجی دستے واپس بلانے کے فیصلے سے ہوا۔ حتیٰ کہ جب اوباما نے افغانستان میں بھی زیادہ بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی اس کردار کی مدت بھی محدود کر دی۔‘‘

ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے خارجہ سیاسی امور کے امریکی ماہر اسٹیفن والٹ
ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کے خارجہ سیاسی امور کے امریکی ماہر اسٹیفن والٹتصویر: presse

اب امریکا عالمی سطح پر بتدریج محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے لگا ہے۔ لیبیا کے معاملے میں بھی واشنگٹن حکومت نے براہ راست فوجی مداخلت کی قیادت کرنے کی بجائے محض نیٹو کی اُن اتحادی افواج کے لیے سیاسی اور لاجسٹک حمایت کی، جو باغیوں کے خلاف سرگرم معمر القذافی کے دستوں پر حملے کر رہی تھیں۔

امریکی قدامت پسندوں کو یوں پس منظر میں رہنے اور کسی اور ملک یا تنظیم کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرنے کا طرزِ عمل پسند نہیں آیا۔ ماہرین کے مطابق مِٹ رومنی کے خیال میں امریکا باقی دنیا سے مختلف اَقدار کی نمائندگی کرتا ہے اور ایک مخصوص ذمہ داری کا حامل ایک خاص ملک ہے، اس لیے اسے دنیا میں غیر معمولی کردار ادا کرنا چاہیے۔

خارجہ سیاست کی جرمن انجمن DGAP سے وابستہ جوزیف برامل
خارجہ سیاست کی جرمن انجمن DGAP سے وابستہ جوزیف براملتصویر: privat

خارجہ سیاست کی جرمن انجمن DGAP سے وابستہ جوزیف برامل کے مطابق امریکا اقتصادی مسائل کے ہاتھوں مفلوج ہو چکا ہے اور اُس کی انقلابات اور جنگوں کی زَد میں آئی ہوئی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے امکانات محدود ہیں۔ مزید یہ کہ رومنی کے لیے باتیں کرنا تو آسان ہے لیکن اگر وہ منتخب ہو گئے تو اُنہیں بھی حقائق کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ برامل کے مطابق امریکا کو سب سے بڑا خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اُس کی اندرونی کمزوری کی صورت میں درپیش ہے۔ انتخابی مہم میں بھی اب تک یہی اندرونی کمزوریاں بالخصوص ٹیکسوں سے متعلق پالیسیاں اور صحت کے شعبے میں اصلاحات موضوع بن رہی ہیں۔

اسٹیفن والٹ کہتے ہیں:’’ری پبلکنر بھی اور ڈیموکریٹس بھی دنیا میں امریکا کے قائدانہ کردار کے قائل ہیں۔ دونوں ہی جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ امریکا کو بدستور فوجی اعتبار سے دنیا کا مضبوط ترین ملک رہنا چاہیے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے خیال میں زیادہ تر بین الاقوامی مسائل کا حل امریکا کو ہی پیش کرنا چاہیے۔

S.Kimball/aa/aba