1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدارتی الیکشن: بہت سخت مقابلے کے غیر واضح نتائج بھی ممکن

6 نومبر 2012

منگل کے امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اکثریتی انتخابی نظام میں اصلاحات کے باعث امیدواروں کے درمیان مقابلہ بہت سخت ہونے کی صورت میں نتائج کی غیر واضح صورت حال بھی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/16d3R
تصویر: Reuters

امریکی ریاستوں نیبراسکا (Nebraska) اور مین (Maine) نے اپنے ہاں صدارتی الیکشن کے حوالے سے اکثریتی عوامی تائید کا اصول یعنی ’جیتنے والے کو سب کچھ ملے گا‘ ختم کر دیا ہے۔ اس کی بجائے وہاں انتخابی حلقوں کی بنیاد پر ایک مختلف انتخابی قانون نافذ ہو چکا ہے۔ اگر باراک اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان مقابلہ بہت کانٹے دار رہا اور ان دونوں ریاستوں میں اس نئے قانون کی وجہ سے ریاستی نتائج مجموعی نتائج کے لیے فیصلہ کن اہمیت اختیار کر گئے تو عمومی طور پر ایک غیر واضح اور قدرے بد نظمی کی سی صورت حال بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔

Barack Obama Wahllokal Chicago
اپنے دوبارہ انتخاب کے خواہش مند باراک اوباماتصویر: REUTERS

یہ ایک ایسی امکانی صورت حال ہو سکتی ہے جسے امریکی صدارتی انتخابی مہم کی حکمت عملی تیار کرنے والے کسی بھی ڈیموکریٹ یا ریبپلکن پالیسی ساز کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سمیت کئی ملین ڈیموکریٹ رائے دہندگان نیبراسکا اور مین کی ریاستوں میں نافذ موجودہ صدارتی انتخابی قوانین کو زیادہ سود مند اور منطقی نہیں سمجھتے۔ اسی لیے سن 2000 کے صدارتی الیکشن کے بعد جب انہوں نے الیکٹورل کالج میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، تو انہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ اصلاحات کے بعد بھی نیبراسکا اور مین جیسی ریاستوں میں حالات ویسے ہوں گے جیسے کہ اب ہیں۔

نیبراسکا اور مین میں یہ تبدیلی آ چکی ہے کہ عوامی انتخابی حلقوں میں سے زیادہ میں کامیابی حاصل کرنے والے صدارتی امیدوار کو ریاست میں الیکٹورل کالج کے ان غیر جانبدار ارکان کے ووٹ بھی مل جائیں گے جو انتخابی حلقوں سے بالا تر ہوتے ہیں۔ اس طرح ان ریاستوں میں نتائج مجموعی نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔

USA US Wahl 2012 Wahlkampf 04.11.
اوباما کو شکست دینے کے خواہش مند مٹ رومنیتصویر: EMMANUEL DUNAND/AFP/Getty Images

اس کی مثال یہ ہے کہ 2008ء کے صدارتی الیکشن میں نیبراسکا میں کل تین انتخابی حلقوں میں سے موجودہ صدر اوباما کو ایک میں کامیابی ملی تھی اور ان کے ریپبلکن حریف جان میک کین کو دو حلقوں میں۔ پھر انتخابی حلقوں میں اکثریت کے قانون کے تحت اس ریاست میں الیکٹورل کالج کے غیر جانبدار ارکان کے دونوں ووٹ بھی جان میک کین کو دے دیے گئے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ نیبراسکا سے اوباما کو الیکٹورل کالج کا صرف ایک ووٹ ملا تھا اور جان میک کین کو چار۔

امریکا میں کل کے صدارتی انتخابات میں اگر کوئی بھی امیدوار، مقابلہ بہت ہی سخت ہونے کی وجہ سے، الیکٹورل کالج کے ارکان کی 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ تعداد کی حمایت حاصل نہ کر سکا، تو پھر ملکی آئین کی رو سے کامیاب امیدوار کا فیصلہ کوٹہ الیکشن کے ذریعے کیا جائے گا۔

اس کوٹہ الیکشن میں فیصلہ ایوان نمائندگان کے ہاتھ میں ہو گا، وہاں جس پارٹی کی اکثریت ہو گی، صدارتی امیدوار بھی اسی کا جیتے گا، ایوان مین رائے دہی کے نتیجے میں۔

بہت سے سیاسی ماہرین کو امید ہے کہ چھ نومبر کے الیکشن میں نوبت وہاں تک نہیں پہنچے گی۔ لیکن ایسا ہو بھی سکتا کیونکہ صدارتی انتخابی عمل میں یہ شماریاتی ڈراؤنا خواب بہرحال ممکن ہے۔

C. Dillon, mm / D. Breitenbach, ai