1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی امداد کی بندش اور پاکستانی وزیر اعظم کا ’تنبیہی‘ بیان

عبدالستار، اسلام آباد
23 جنوری 2018

امریکی امداد کی بندش کے حوالے سے پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے ایک حالیہ بیان کو پاکستان میں کئی حلقے اسلام آباد کی مالی مشکلات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ کیا وزیرِ اعظم کا یہ بیان ملکی مالی مشکلات کا عکاس ہے؟

https://p.dw.com/p/2rMsp
New York Pakistans Premierminister Shahid Khaqan Abbasi
تصویر: Reuters/J. Moon

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں خبر دار کیا ہے کہ امریکی مالی امداد کی بندش سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کارکردگی متاثر ہوگی اور پھر امریکا کو دہشت گردوں سے خود ہی لڑنا پڑے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ معطل شدہ امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کے عوض معاوضہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کے خیال میں یہ بیان ان جذباتی نعروں کے بر عکس ہے جو پاکستانی حکومت کی جانب سے امداد کے بند ہونے پر آغاز میں لگائے گئے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عامر حسین کا کہنا تھا، ’’جب امریکا نے امداد بند کی تو ہم نے کہا ہمیں امداد نہیں بلکہ اس بات کا اعتراف چاہیے کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں کتنی قربانیاں دیں لیکن اب ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ بد حال معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم امریکی امداد کھو بیٹھیں۔ ساٹھ یا ستر کی دہائیوں میں ہم جو امداد لیتے تھے، وہ مختلف منصوبوں کے لیے لیتے تھے لیکن اب ہم یہ امداد قرضوں کی ادائیگی، بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور دیگر مقاصد کے لیے لیتے ہیں، جن کی نوعیت فوری ہوتی ہے۔ ہم پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ آنے والے مہینوں میں تین ارب ڈالرز کے قریب ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں دینے ہیں۔ ہمارا بجٹ خسارہ بھی چل رہا ہے تو ایسے میں ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے پیسہ کہاں سے لائیں گے۔ اسی لئے وزیرِ اعظم امریکا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امداد کی بندش نا مناسب ہے اور آپ کو یہ امداد بحال کرنی پڑے گی کیونکہ آپ ہمارے بغیر افغانستان میں کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

Davos Weltwirtschaftsforum
تجزیہ کاروں کے مطابق داووس میں پاکستان کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہےتصویر: World Economic Forum/J. Polacsek

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان اور امریکا ستر برسوں سے اتحادی ہیں اس لیے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکا شمالی راستہ نیٹو سپلائی کے لئے نہیں لے سکتا، یہ بہت لمبا اور مہنگا ہے اور پھر اس کے لیے اُسے روس کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ایران امریکا کو راستہ نہیں دے گا۔ تو خطے میں صرف پاکستا ن ہی وہ ملک ہے جو نیٹو سپلائی کے لئے امریکا کی مدد کر سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان امریکا کو باور کرا رہا ہے کہ خطے میں ہماری جغرافیائی اہمیت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

اقوام متحدہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے، امریکا

’ٹرمپ افغانستان کے لیے نرم اور پاکستان کے لیے سخت گیر‘

انہوں نے کہا کہ داووس میں پاکستان کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔’’داووس میں پاکستان جنوبی پول کا حصہ ہے، جس میں پاکستان کی معیشت طاقتور معیشتوں میں شامل نہیں ہوتی۔ اس پول میں چین، روس اور بھارت طاقتور ممالک ہیں۔ لیکن اگر وہاں غیر ریاستی عناصر یا دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے کوئی مسئلہ آتا ہے، تو پاکستان امید کرے گا کہ چین اور روس اس مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دیں اور امریکا اسلام آباد پر اس حوالے سے کوئی ناجائز دباؤ نہ ڈال سکے۔‘‘

معروف تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری کے خیال میں بھی پاکستان امریکی امداد کی بحالی چاہتا ہے۔ حسن عسکری کے بقول،’’اس بیان کا بظاہر یہی مقصد لگتا ہے کہ امریکا ہماری امداد جاری رکھے اور ہماری حمایت بھی کرتا رہے کیونکہ اس امداد کے رکنے سے اگر دہشت گردی کی جنگ متاثر ہوئی تو اس سے پاکستان اور امریکا دونوں متاثر ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال واشنگٹن اس موڈ میں نہیں کہ اسلام آباد کی بات کو سنے۔ دونوں ممالک میں خاموش سفارت کاری چل رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا یا پاکستان اس میں کس حد تک لچک دکھاتے ہیں۔‘‘