امریکہ میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ
7 مارچ 2009امریکہ کے اندر گزشتہ ساٹھ سالوں میں بے روزگاروں کی تعداد ہر حد کو عبور کر چکی ہے۔ فروری کے مہینے بھی ساڑھے چھ لاکھ افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
امریکہ کے اندر مالی دانشور یورپ کے اندر پیدا شدہ مالی بحران سے بھی پریشان اور خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اور اُن کے مطابق اِس کے اثرات بھی امریکہ تک ضرور پہنچیں گے۔ دوسری جانب بحر اوقیانوس سے پار یورپ میں اقتصادیات کے مزید سکڑنے کے اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔
امرکیہ میں موجودہ شرح بے روزگاری آٹھ فی صد سے زائد ہو گئی ہے جو سن اُنیس سو تراسی کی انتہائی شرح سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک مالیاتی بحران کے بعد کی صورت حال کے باعث چھبیس لاکھ افراد نوکریوں سے فارغ کئے جا چکے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کے مطابق یہ تعداد چوالیس لاکھ کے قریب ہے۔
کیلی فورنیا سٹیٹ یونی ورسٹی کے اقتصادیات کے پروفیسر Sung Won Sohn کے خیال میں موجودہ صورت حال کے وسیع تناظر میں اگر دیکھا جائے تو شرح بے روزگاری پندرہ فی صد کے قریب ہے۔ کیونکہ سرکاری اعداد و شمار میں فارغ ہونے والے جزوقتی ملازمین کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ امریکہ کو دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد، سن اُنیس سو انچاس میں بھی ایسے معاشی حالات کا سامنا تھا۔ تب اتنی بڑی تعداد میں ملازمین نوکریوں سے نکال باہر کئے گئے تھے۔
اُدھر اوبامہ انتظامیہ کی وزیر محنت Hilda Solis کا کہنا ہے کہ اُن کی وزارت کے پاس پینتیس ارب ڈالر کا سرمایہ موجود ہے جس کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بے روزگار ہونے والے افراد کی مزید تربیت اور ازسر نو ملازمتوں کی فراہمی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ مگر ماہرین کے خیال میں بے روزگاروں کے حجم کے مقابلے میں یہ رقم انتہائی کم ہے۔
دوسری جانب امریکی کار انڈسٹری ابھی تک بُرے حالوں میں ہے۔ بڑے کار ساز ادارےجنرل موٹرز کارپوریشن کو اب بھی اپنی بقا کی جدو جہد کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز بھی اُس کے حصص میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ جنرل موٹرز عدالت میں دیوالیہ ہونے کی درخواست دائر کرنے کی بجائے اپنی تشکیل نو میں مصروف ہے جس کو کئی سیکٹر میں قابلِ ستائش خیال کیا جا رہا ہے۔
اوبامہ انتظامیہ، آٹھ سو ارب ڈالر کے قریب کے اقتصادی تحریکی پیکج کے ذریعے جمود کی شکار معاشیات کو کساد بازاری کی دلدل سے نکالنے کی کوشش میں ہے ،اُس کے مطابق سردست نوکریوں سے نکالنے کا جو پہیہ گھوم رہا ہے اُس کو روکنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
شرح بے روزگاری میں اضا فے کے نئے اعداد شمار سامنے آنے پر امریکی کرنسی ڈالر کی قدر میں کمی پیدا تو ضرور ہوئی مگر اِّس کے مالی منڈیوں پر گہرے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ بازار حصص میں بظاہر مندی کا رجحان موجود ہونے کے باوجود حصص کی قیمتوں میں قدرے اضافہ دیکھا گیا جو اطمننان بخش تصور کیا جا سکتا ہے۔