1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اپنے قائدانہ کردار کے لئے دوبارہ تیارہے، صدر اوباما

مقبول ملک21 جنوری 2009

واشنگٹن میں منگل بیس جنوری کی دوپہر جب یورپ میں شام اور جنوبی ایشیا میں رات ہو چکی تھی، امریکی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کرتے ہوئے باراک اوباما نے امریکہ کے 44 ویں صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

https://p.dw.com/p/GdGV
باراک اوباما اپنی حلف برداری کے بعد قومی ترانہ گاتے ہوئےتصویر: AP

امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر کے طور پر باراک اوباما کی حلف برداری کے موقع پر ملکی دارالحکومت میں کانگریس کی عمارت والے کیپیٹل ہل اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں قریب دو ملین افراد جمع تھے۔ مجمع میں شامل افراد کی انتہائی جذباتی حالت باآسانی محسوس کی جاسکتی تھی اور لوگ مسلسل باراک اوباما کے حق میں نعرے بھی لگا رہے تھے۔

اس موقع پر سفید فام اور سیاہ فام دونوں ہی طرح کے نسلی پس منظر والے ہزار وں امریکی شہریوں کی آنکھیں نم تھیں کیونکہ اس تقریب کے موقع پر موجود یا اسے دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹیلی ویژن پر دیکھنے والا ہر انسان محسوس کرسکتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی دیکھ رہا ہے، وہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کے بعد آنے والی ممکنہ تبدیلیوں سے صرف امریکہ ہی میں نہیں بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی کروڑوں انسانوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔

Obama Inauguration
کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر حلف برداری کی تقریب کا ایک منظرتصویر: AP

ایک شاندار تقریب کے نقطہ عروج پر حلف برداری کے وقت نئے امریکی صدر کا پورا نام باراک حسین اوباما استعمال کیا گیا۔حلف برداری امریکی آئین سے وفا داری کے عہد کے ساتھ شروع ہوئی جس کے اختتام پر نئے صدر کو مبارک دیئے جانے کے ساتھ ہی لاکھوں کے مجمع کی طرف سے بھر پور خوشی کا اظہار کیا گیا۔

حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں نئے امریکی صدر نے پہلے اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش کا امریکہ کے لئے ان کی خدمات کے باعث شکریہ ادا کیا اور پھر یہ اعتراف بھی کیا کہ امریکہ اس وقت بحران کا شکار بھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر دشمنی اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف جنگ میں مصروف بھی۔

صدر اوباما کے بقول امریکہ کو ان وقت جن حالات کا سامنا ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امریکی قوم اجتماعی طور پر خود کو ایک نئے دور کے لئے تیار کرنے میں ناکام رہی۔ اپنے دور صدارت کے پہلے ہی دن سے باراک اوباما کے سیاسی ارادے بہت واضح تھے اور وہ مقاصد بھی جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: "ہمیں آج ہی سے امریکہ کی نئی تشکیل کا کام شروع کرنا ہوگا۔"

Obama Inauguration
صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد باراک اوباما اورخاتون اول میشیل اوباما کی سابق صدر بش اور ان کی اہلیہ لاؤرابش کے ہمراہ لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

بیرونی دنیا میں دیگر قوموں اور ریاستوں کے لئے بھی باراک اوباما کا پیغام بہت واضح تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کے عمل میں وہ نئی سوچ اپنائیں گے۔ خارجہ تعلقات کے حوالے سے نئی امریکی حکومت کی ترجیحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا: "وہ تمام قومیں اور حکومتیں جو اس وقت ہمیں دیکھ رہی ہیں، بہت بڑےبڑے دارالحکومتوں سے لیکر اس چھوٹے سے گاؤں تک جہاں میرے والد پیدا ہوئے تھے، ان سب کو جان لینا چاہیئے کہ امریکہ ہر قوم کا دوست ہےاور ہر اس مرد، عورت اور بچےکا بھی جو مستقبل میں اپنے لئے امن اور وقار سے عبارت زندگی کا خواہش مند ہے۔ امریکہ ایک بار پھر اپنے قائدانہ کردار کے لئے بالکل تیار ہے۔"

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے امریکی صدر نے ایک نئے سیاسی دور کے آغاز کا اعلان کیا اور اپنے ہم وطنوں سے مطالبہ کیا کہ موجودہ معیشی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں۔ صدر اوباما کے مطابق امریکی معیشت کو درپیش بحرانی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت اور محنت درکار ہوگی تاہم امریکہ اس چیلنج پر پورا اترے گا۔

بعد ازاں نئے امریکی صدر نے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے محض چند گھنٹے بعد ہی جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں گذشتہ امریکی حکومت کے تمام انتظامی فیصلوں پر عمل درآمد روک دیا۔ باراک اوباما کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ بش انتظامیہ کے فیصلوں کا سیاسی اور قانونی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائےگا۔