1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں اسلام مخالف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ

بینش جاوید21 جون 2016

صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران امریکا میں خطرناک حد تک اسلام مخالف جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کئی رپورٹس کے مطابق نائن الیون کے بعد سے اس وقت مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 500 گنا اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JAje
Islamische Organisation in den USA CAIR
تصویر: Cair

امریکا میں اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ ’دی بریج اینیشیٹیو‘ کے مطابق مارچ 2015ء کے بعد سے جب امریکا میں صدارتی امیدوار کی نامزدگیوں کے لیے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا، تب سے مسلمانوں کے خلاف 180 جرائم رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔ ان میں 12 قتل، 34 جسمانی حملے، 49 زبان سے بدکلامی جبکہ 56 حملے، مساجد اور مذہبی تعمیرات کی توڑ پھوڑ کے تھے۔

'دی کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز‘ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد خولہ حدید نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’امریکا کے صدارتی انتخابات کے دوران اسلام مخالف جذبات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی اسلام مخالف جرم کی خبر آتی ہے۔‘‘ خولہ کہتی ہیں کہ سان برانڈینو کا واقعہ ہو یا اورلینڈو کے نائٹ کلب کا ہولناک واقعہ ہر مرتبہ مسلمان کمیونٹی ایک خوف کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ باقی لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی الرٹ ہوجاتے ہیں کہ مسلمانوں کو نفرت انگیز جرائم کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

خولہ حدید مزید کہتی ہیں، ’’کئی رپورٹس کے مطابق نائن الیون کے بعد سے اس وقت مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 500 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب مساجد کو تالے لگائے جاتے ہیں، مساجد میں کبھی کوئی نفرت انگیز خط پھینک دیے جاتے ہیں، کبھی کوئی دھمکی دے دی جاتی ہے اور ویسے افراد جو بظاہر مسلمان تشخص رکھتے ہیں انہیں بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک ویب سائٹ ‘ہیٹ ہرٹس ڈاٹ نیٹ‘ پر وہ تمام واقعات کی تفصیلات موجود ہیں جن میں مسلمانوں یا اسلامی سنٹرز اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘

خولہ کے مطابق اس وقت امریکا میں جو بیانیہ ہے اس میں مساجد اور مذہبی اداروں کو ہی مسئلہ قرار دیا جارہا ہے اور سیاسی لیڈر ایسی باتیں کر رہے ہیں جو مسلمان مخالف جذبات کو بڑھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اورلینڈو واقعے کے بعد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد صدر اوباما نے ایک تقریر میں ایسے تمام افراد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو کھلِ عام مسلمانوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔

Islamische Organisation in den USA CAIR Khaula Hadeed
خولہ حدید کہتی ہیں کہ کئی رپورٹس کے مطابق نائن الیون کے بعد سے اس وقت مسلمانوں کے خلاف جرائم میں 500 گنا اضافہ ہوا ہےتصویر: Cair

خولہ کہتی ہیں کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے تو امریکا کے طاقتور اسلامی ادارے اکٹھے ہو جاتے ہیں اورمل کر اس واقعے کی مذمت اور امریکی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور واضح کیا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ اورلینڈو واقعہ کی مثال دیتے ہوئے خولہ نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد امریکا کے ایک سو سے زائد اسلامی اداروں نے مل کر ایک بیان جاری کیا تھا اور اورلینڈو حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

خولہ کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ادارے یا مسجد کو زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ کون سا شخص انتہا پسندی کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ اورلینڈو حملے میں ملوث شخص عمر متین بہت ہی کم مسجد میں نظر آیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکا میں ایف بی آئی سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلمان کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور مسلمان ہی سب سے پہلے بتاتے ہیں اگر انہیں کسی پر شک ہوتا ہے۔

امریکا میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے خولہ کہتی ہیں کہ امریکا کے جنم سے پہلے یہاں اسلام موجود تھا اسلام امریکا کی اقدار میں شامل ہے لہذا اسلام کو امریکا میں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے لیے یہ بہت مشکل وقت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم لوگوں کو اکٹھے ہونا ہے اور سوچنا ہے کہ کس طرح اسلام مخالف بیانیے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔‘‘