050412 USA Birma
5 اپریل 2012امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کل کہا کہ ميانمار پر پابندياں نرم کرنے ميں يہ بات بھی شامل ہے کہ اُس کے حکومتی اراکين کو امريکہ آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مالی خدمات اور سرمايہ کاری پر عائد پابندياں بھی ختم کر دی جائيں گی۔ کلنٹن نے کہا کہ ميانمار کو ايک سفير روانہ کرنے کے ذريعے اُس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کر ديے جائيں گے۔
اتوار يکم اپريل کے انتخابات ميں اپوزيشن کی قائد اور نوبل انعام يافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نے پارليمنٹ کی 45 ضمنی نشستوں ميں سے 43 حاصل کر ليں۔ امريکا فوج سے قربت رکھنے والی ميانمار کی حکومت کو ُاس کی اصلاحات کی کوششوں پر انعامات سے نوازنا چاہتا ہے۔ امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے کہا: ’’امريکا نے اصلاحات اور ترقی کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی ميانمار حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ قدم اٹھانے کا عہد کيا ہے۔ ضمنی انتخابات اور دوسری اصلاحات کے پيش نظر ہم کانگريس اور ايشيا اور يورپ ميں اپنے اتحاديوں سے اس بارے ميں صلاح مشورے کر رہے ہيں کہ حاليہ مہينوں کے دوران آنے والی تبديليوں پر ہمارا ردعمل کيا ہونا چاہيے۔‘‘
ميانمار کی فوجی حمايت سے قائم حکمران پارٹی کو اب يہ خدشہ ہے کہ سن 2015 کے عام انتخابات ميں اُس کا اثر بالکل ہی ختم ہو سکتا ہے۔ اس ليے يہ پارٹی اب تسليم کر رہی ہے کہ اُسے خود کو نئے سرے سے تشکيل دينا ہو گا۔ ايک سابق فوجی اور اليکشن ميں آنگ سان سوچی سے شکست کھانے والے پارٹی کے ايک رکن نے کہا کہ فوجی کسی جنگ ميں ہار جانے کے بعد خود اپنی صفوں کا جائزہ ليتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے بعد فيصلہ کرتے ہيں کہ آگے کيا کرنا ہو گا۔ پارٹی کے جنرل سيکرٹری نے کہا کہ ہميں اپنی کمزوريوں کا جائزہ لينا ہو گا۔
ضمنی انتخابات سے ايک ہفتہ قبل ميانمار کی مسلح افواج کے سربراہ من آنگ ہلائنگ نے کہا تھا کہ فوج کو سياسی قيادت کا کردار عطا کرنے والے آئين کا تحفظ جائے گا۔
ليکن آنگ سان سوچی نے ايک نيوزکانفرنس ميں کہا کہ فوج کو يہ سمجھنا چاہيے کہ اس ملک کا مستقبل اُس کا اپنا مستقبل بھی ہے اور اصلاحات اُس کے ليے بھی ہيں۔
sas/hk (AFP)