1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امداد کی کمی، شامی مہاجرين کے کئی پروگرام متاثر ہونے کا خدشہ

2 جون 2018

اقوام متحدہ اور امدادی اداروں نے شامی مہاجرين کی مدد کے ليے رقوم کا مطالبہ کيا ہے۔ اس وقت ان اداروں کو مالی امداد کی کمی کا سامنا ہے اور اس صورتحال کے نتيجے ميں مہاجرين کے ليے متعدد پروگرامز کو جاری رکھنا ممکن نہيں۔

https://p.dw.com/p/2yph7
Libanon Flüchtlingslager Zahle
تصویر: DW/M. Jay

اقوام متحدہ اور متعدد غير سرکاری تنظيموں نے شامی مہاجرين کی ميزبانی کرنے والے ممالک ميں جاری پروگراموں کے ليے ’ريجنل ريفيوجی اينڈ ريزيليئنس پلان‘ (3RP) کی مد ميں اس سال کے ليے 5.6 بلين ڈالر کا مطالبہ کيا ہے۔ فی الحال ايجنسيوں کے پاس مطلوبہ رقوم کا اٹھارہ تا بائيس فيصد حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ کے بيورو کے ڈائريکٹر امين اواد نے کہا ہے کہ يہ رقوم کافی نہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہميں مہاجرين اور پناہ گزينوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے نقد رقوم دينے ميں پہلے ہی دشوارياں پيش آ رہی ہيں۔ علاوہ ازيں انہيں طبی سہوليات کی فراہمی ميں بھی مشکل پيش آ رہی ہے جبکہ موجودہ صورتحال ميں امداد کرنے والے بلدياتی نظاموں اور حکومتوں کے ساتھ تعاون بھی جاری نہيں رکھا جا سکتا۔ اواد نے اردن ميں اسی ہفتے منعقدہ ايک کانفرنس ميں بتايا کہ صورتحال انتہائی خراب ہے۔

اقوام متحدہ اور امدادی اداروں نے اضافی فنڈز کا مطالبہ اردن، لبنان، ترکی، عراق اور مصر ميں شامی پناہ گزينوں کی مدد کے ليے کيا ہے۔ امدادی رقوم کی عدم دستيابی کے سبب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال يونيسیف کی جانب سے اردن اور لبنان ميں پانی کی فراہمی کا سلسلہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ يونيسیف کے علاقائی ڈائريکٹر گيئرٹ کاپيلارے نے مزيد کہا کہ خاندانوں کو گزر بسر کے ليے فراہم کی جانے والی امدادی رقوم بھی رک سکتی ہيں۔

اپنی آبادی کے لحاظ سے لبنان اور اردن نے سب سے زيادہ تناسب ميں شامی مہاجرين کو پناہ دے رکھی ہے۔ ان دونوں ملکوں کو بالخصوص امداد کی قلت کا سامنا ہے۔ لبنان کے امدادی پروگرام کو اب تک ملنے والے فنڈز مطلوبہ حجم کے صرف بارہ فيصد کے برابر ہيں جبکہ اردن کو مطلوبہ رقوم کا صرف اکيس فيصد حصہ وصول ہو سکا ہے۔

شامی حانہ جنگی کے سبب اس ملک کے ساڑھے پانچ ملين افراد پناہ گزينوں کے طور پر زندگياں گزار رہے ہيں۔ جنگ اب بھی جاری ہے جبکہ يہ پناہ گزين پڑوسی ملکوں اور دنيا کے ديگر کئی خطوں ميں قيام جاری رکھے ہوئے ہيں۔