’امتيازی قوانين و پاليسياں ايڈز کی روک تھام ميں رکاوٹ‘
26 جولائی 2014جمعہ پچيس جولائی کے روز بيسويں عالمی ايڈز کانفرنس کی اختتامی تقريب سے خطاب کرتے ہوئے انٹرنيشنل ايڈز سوسائٹی کے کرس بيرئر نے کہا، ’’امتيازی قوانين و پاليسيوں کی لہر ہميں پيچھے کھينچ رہی ہے، جس سے متاثرين کے حقوق محدود ہو رہے ہيں، طبی سہوليات کی فراہمی کم ہو رہی ہے اور وائرس کے پھيلاؤ کو تقويت حاصل ہو رہی ہے۔‘‘
کرس بيرئر نے اپنے موقف کی تائيد کے ليے افريقی ملک يوگنڈا کی ايک نرس کی مثال دی، جسے ايچ آئی وی وائرس تشخيص ہونے پر ملکی قوانين کے تحت جيل بھيج ديا گيا تھا۔ انہوں نے مزيد کہا کہ روس، بھارت، نائجيريا اور يوگنڈا ميں ہم جنس پرستی کے خلاف عائد قوانين و پاليسياں تشويش کا باعث ہيں اور يہ بات بھی کہ اب کئی ديگر ممالک ميں بھی اس حوالے سے بات چيت جاری ہے۔
اس موقع پر جنوبی افريقہ کی ہيومن سائنس ريسرچ کونسل کی چيف اگزيکيٹو آفيسر آليو شناسا نے کہا کہ امتيازی سلوک کے علاوہ ’اسٹگما‘ يا کسی چيز يا عمل کو برائی سے تعبير کيا جانا بھی بيماری کی روک تمام کے ليے جاری کوششوں ميں رکاوٹ پيدا کر رہا ہے۔
ايڈز کی بيماری 1981ء ميں دريافت ہوئی تھی اور اس وقت سے لے کر اب تک يہ دنيا بھر ميں 78 ملين افراد کو متاثر کر چکی ہے۔ ايڈز کا سبب بننے والا ايچ آئی وی نامی وائرس انسانی جسم ميں داخل ہو کر قوت مدافعت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، جس سبب انسانی جسم ٹی بی، نمونيا اور ديگر کئی اقسام کی بيماريوں کا شکار بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ايڈز اب تک 39 ملين افراد کی جان لے چکا ہے۔ 2013ء ميںHIV سے متاثرہ افراد کی تعداد کُل پينتيس ملين کے لگ بھگ تھی۔
آسٹريلوی شہر ميلبورن ميں بيس جولائی سے شروع ہونے والی اس چھ روزہ ايڈز کانفرنس ميں 13,600 سے زائد محققين، پاليسی ساز، ايڈز کے ليے کام کرنے والے اداروں کے نمائندے اور کارکنان نے حصہ ليا۔ اگلی عالمی ايڈز کانفرنس 2016ء ميں جنوبی افريقی شہر ڈربن ميں منعقد ہو گی۔