1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

المیہ در المیہ:عراقی پناہ گزینوں کی شام سے واپسی

Kishwar Mustafa10 اگست 2012

اب شام کی خانہ جنگی کے سبب وہاں مقیم بہت سے عراقیوں کو اپنے ملک میں روشنی کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/15nba
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ ایک المیے سے دوسرے المیے کی طرف فرار ہے۔ ہزاروں عراقی پناہ گزین شام سے اپنے غیر محفوظ ملک عراق لوٹ رہے ہیں۔ اس کی وجہ شام میں جاری جنگ ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شامی باشندے پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ممالک کی طرف بڑھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

جھڑپیں، بم دھماکے، خود کُش حملے، تشدد اور نسلی مذہبی تنازعات کی سبب ہونے والی خانہ جنگی، یہ تھا منظر نامہ آج سے پانچ سال پہلے عراق کا۔ ساتھ ہی ہر ماہ تشدد کا شکار ہو کر 1500 افراد کی ہلاکتیں۔ ان وجوہات کے سبب اُس وقت لاکھوں عراقی باشندے ملک سے فرار ہو کر ہمسایہ ممالک نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ کم از کم پانچ لاکھ اردن اور ایک ملین سے زائد عراقی پناہ کی تلاش میں شام پہنچے تھے۔ عراق میں اُس وقت کے پناہ گزینوں کے امور کے وزیر کو یقین تھا کہ عراقی پناہ گزینوں کو واپس وطن آنے کے لیے ٹرانسپورٹ مفت فراہم کرنے جیسی سہولیات کار آمد ثابت ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا،’’ ابھی وقت لگے گا تمام عراقی باشندوں کو اپنے ملک لوٹنے میں۔ تاہم جلد یا بدیر زیادہ تر واپس آ ہی جائیں گے۔ تاہم ان کی تیزی سے واپسی کے لیے ہمیں اپنی طرف سے تمام ممکنہ اقدامات کرنا ہوں گے‘‘۔

Syrien / Irak / Flüchtlinge / Flüchtlingslager
شام اور عراق کی سرحد پر قائم پناہ گزینوں کا کیمپتصویر: Reuters

تاہم بمشکل کوئی شورش زدہ ملک میں واپس آنا چاہتا تھا۔ شام میں ان عراقی پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کی طرف سے 200 ڈالر ماہانہ رقم، مفت کی رہائش، خوراک، پورے دن صاف پانی اور بجلی کی فراہمی جیسی سہولیات میسر تھیں۔ کیوں کوئی اُس زندگی کو ترک کر کے تشدد اور جنگ کے ماحول میں زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہو۔

ہوائی جہاز کی مفت ٹکٹ اور ابتدائی مالی امداد کے باوجود بے روزگاری اور بنیادی ضروریات کی کمی کی وجہ سے ان حالات میں کون اس ملک میں واپسی کا خواہش مند ہوگا۔

فاطمہ کے لیے کئی سالوں پہلےعراق میں کوئی مسقبل نہیں تھا۔ اُس کے بقول،’ 500 ڈالر۔ یہ رقم کسی صورت کافی نہیں۔ ہم اپنا سب کچھ کھو چُکے ہیں، اپنا گھر، اپنا تمام تر مال و متاع۔ نہ بجلی نہ پینے کا صاف پانی، نہ استحکام ہے اور نہ ہی امن و سلامتی‘۔

Flüchtlingslager Irak Bewohner
عراقی پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہےتصویر: 2011 Reese Erlich

اب شام کی خانہ جنگی کے سبب وہاں مقیم بہت سے عراقیوں کو اپنے ملک میں روشنی کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔ بشار الاسد کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکنے سے قبل بہت سی چیزیں شام میں آسان تھیں۔ مئی کے ماہ میں شام میں عراقی پناہ گزینوں کی تعداد کم ہوکر 90 ہزار رہ گئی تھی۔ دریں اثناء اس تعداد میں مزید کمی آئی ہے۔ بغداد حکومت شام سے اپنے تمام پناہ گزینوں کو واپس بلا رہی ہے۔ عراق کے پناہ گزینوں کے امور کے نائب وزیر سلام الخفاجی کا کہنا ہے، ’ جو کچھ ہم شام میں دیکھ رہے ہیں وہ عراقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہاں اب ہمارے ہاں سب ٹھیک ہے‘۔

تاہم پرامن اور محفوظ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی خواہش عراق میں اب بھی ایک خواب کی طرح ہے۔ گزشتہ ماہ عراق میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں 325 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

L.Ulrich/km/ab