الشباب کے خلاف افریقی یونین کی فورسز کی تازہ کارروائیاں
8 اکتوبر 2011کارروائی کا مقصد القاعدہ سے روابط رکھنے والے الشباب کے عسکریت پسندوں کے بچے کھچے عناصر کا صفایا کرنا ہے۔ اس کارروائی کو گزشتہ منگل کے روز اب تک ہونے والے سب سے ہلاکت خیز حملے سے بھی تحریک ملی ہے جس میں عسکریت پسندوں نے ایک سرکاری عمارت کے باہر دھماکہ خیز مواد سے بھرے ہوئے ٹرک کو اڑا دیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شمالی کاران ضلع میں جہاں لڑائی جاری ہے کے سربراہ عبد اللہ محمد روبل نے کہا، ’’موغادیشو کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے صومالیہ کے فوجی دستے اور ان کی معاونت کرنے والے افریقی امن فوجی نئے علاقوں میں پہنچے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ فورسز نے علی الصبح کیسانی ہسپتال کا کنٹرول سنبھال لیا اور ضلع میں کافی آگے تک پیشقدمی کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مشن کا مقصد پورے شہر سے الشباب کے باقی عناصر کا خاتمہ کرنا ہے۔
افریقی یونین کے فورس کمانڈر میجر جنرل فریڈ موگیشا کے مطابق عسکریت پسندوں کے جنگ زدہ موغادیشو سے انخلاء کے بعد اب شہر کے 95 فیصد حصے پر فوج کا قبضہ ہے۔
الشباب کے عسکریت پسندوں نے چار برس قبل مغربی حمایت یافتہ موغادیشو حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ وہ دارالحکومت سے جا چکے ہیں مگر اپنی گوریلا کارروائیوں کے باعث اب بھی وہ استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
الشباب ملیشیا کے ایک نام ظاہر نہ کرنے والے کمانڈر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اتحادی فورسز نے آج صبح جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہم نے انہیں بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کے بعد وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘
علاقے کے رہائشیوں نے سخت لڑائی کی اطلاع دی ہے اور افریقی یونین اور صومالی حکومت کے فوجی دستوں کو بکتر بند گاڑیوں میں ضلع کی جانب بڑھتے دیکھا گیا۔
عبد اللہ معلم نامی ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اس نے بہت سے ٹینک اور افریقی یونین اور صومالی حکومت کے فوجیوں کو کیسانی علاقے کی جانب بڑھتے دیکھا۔ اس کے بقول سخت فائرنگ کے تبادلے کی بھی آوازیں سنائی دیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل