1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کی ثالثی میں لیبیا میں یونٹی حکومت قائم

عاطف توقیر19 جنوری 2016

اقوام متحدہ کی حمایت سے لیبیا کے مختلف متحارب گروپ ایک قومی حکومت کے قیام پر رضامند ہو گئے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ان گروپوں کو کتنی طاقت اور اثرورسوخ حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hg1Q
Libyen Tripolis Platz der Märtyrer Stadtbild Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia

عالمی طاقتوں کی جانب سے اپیل کی گئی ہے کہ لیبیا میں قائم دو متوازی حکومتیں اور پارلیمان تشدد اور خون ریزی کے خاتمے کے لیے سیاسی بحران کو حل کیا جائے، کیوں کہ یہ شورش زدہ ملک اب دن بہ دن اسلامی شدت پسندوں کے لیے بھی ایک مضبوط ٹھکانے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

تاہم یہ بات انتہائی تشویش ناک قرار دی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات اور گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے پر اب تک ان دو متوازی پارلیمانوں کے نصف سے بھی کم ارکان نے دستخط کیے ہیں۔

Martin Koblers Besuch in Libyen
مارٹن کوبلر نے حکومت کی تشکیل کا خیرم مقدم کیا ہےتصویر: picture alliance / dpa

یونٹی حکومت کی سربراہی فیاض السراج نامی ایک کاروباری شخصیت کریں گے اور ان کا نام بطور وزیراعظم پیش کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اس قومی یونٹی حکومت میں 32 وزراء شامل ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے مندوب برائے لیبیا مارٹن کوبلر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’میں قومی معاہدے کے تحت حکومت کے قیام پر لیبیا کی عوام اور صدارتی کونسل کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘

انہوں نے لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پارلیمان ایوانِ نمائندگان سے اپیل کی کہ وہ جلد سے جلد اس یونٹی حکومت کی توثیق کرے۔

لیبیا کی دونوں پارلیمانوں کی جانب سے فی الحال حکومت سازی کے اعلان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ جرمن سفارت کار کوبلر نے گزشتہ برس نومبر میں اقوام متحدہ کے مندوب برائے لیبیا کا عہدہ سنبھالا تھا اور انہوں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے پس رو بیرنارڈینو لیون کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے لیبیا میں قومی حکومت کے قیام کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

لیبیا میں سن 2011ء میں قذافی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی مسلح بغاوت نے آمریت کا خاتمہ تو کر دیا، تاہم اس کے بعد یہ ملک مسلسل داخلی انتشار کا شکار ہے۔ طرابلس میں متعدد ملیشیا گروپوں نے اتحاد کر کے دارالحکومت طرابلس میں اپنی حکومت کا اعلان کر دیا تھا، جب کہ ملکی حکومت اور پارلیمان کے ارکان کو فرار ہو کر ملک کے مشرقی شہر تبروک میں جا کر ڈیرے ڈالنا پڑ گئے تھے۔