1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں‘

24 فروری 2016

پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت کا فیصلہ امن عمل کے لئے مثبت اشارہ ہے۔ افغان اسپیکر بارہ رکنی پارلیمانی وفد کے ہمراہ پانچ روزہ دورے پر منگل کو اسلام آباد پہنچے تھے۔

https://p.dw.com/p/1I1DA
Pakistans Premier Sharif mit afghanischem Präsidenten Ghani in Kabul
تصویر: Reuters/O. Sobhani

پاکستانی وزیراعظم نے یہ بات بدھ کو اسلام آباد میں افغانستان کے ایوان زیریں وولسی جرگہ کے اسپیکر عبدالرؤف ابراہیم سے ملاقات کے دوران کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہےکہ وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی ان کوششوں کے نتیجے میں افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

وزیر اعظم نے تجارت اور معاشی ترقی کے لیے دو طرفہ تعاون کی خواہش بھی ظاہر کی۔ افغان اسمبلی کے اسپیکر عبدالرؤف ابراہیم نے افغان مہاجرین کی تیسں سالوں سے میزبانی کو سراہتے ہوئے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا، ’’افغانستان کےدوست پاکستان کے دوست ہیں اور افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس کے افغانوں بھائیوں کے لئے دوسرا گھر ہے اور ہر طرح کی صورتحال میں دونوں کو قریبی دوست بن کر رہنے کی ضرورت ہے۔

افغان امور کے ماہر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا کہنا ہے کہ ویسے تو افغان پارلیمانی وفد کا دورہ دونوں جانب کے پارلیمانی تعلقات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے تاہم اس دورے کا وقت اہم ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ گزشتہ روز کابل میں چہار فریقی اجلاس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اسلام آباد میں جو براہ راست بات چیت کی بات کی جارہی ہے اس حوالے سے پارلیمانی وفد کا دورہ یوں اہم کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعلی سطح پر اعتماد سازی ہو گی اور اس کا اچھا اثر پڑے گا۔‘‘

انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال جون میں پاکستان کی میزبانی میں بات چیت کا جو سلسلہ ختم ہوا تھا اب وہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو سکے گا۔ خیال رہے کہ منگل کو پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین پر مشتمل چہار فریقی تعاون گروپ (کیو سی جی) نے کابل میں اپنے چوتھے اجلاس کے بعد جاری بیان میں افغان حکومت کے طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں گروپوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کی بھرپور حمایت کی تھی۔

افغان وزارت خارجہ نے گروپ کو بتایا کہ براہ راست مذاکرات کا پہلا دور مارچ کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں متوقع ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی دوحہ کا دورہ کیا تھا اور قطری حکام سے افغان امن عمل میں طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ذریعے کردار ادا کرنے اور حمایت حاصل کرنے کے لئے بات چیت کی تھی۔

دریں اثناء افغان پارلیمانی وفد نے بدھ کو پاکستانی پارلیمنٹ کا دورہ بھی کیا اور قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات کی۔اس ملا قات میں دوطرفہ پارلیمانی تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے پارلیمانی تعلقات کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا۔

دوسری جانب اسلام آباد میں نئے تعینات ہونے والے بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمبانوالا نے بھی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونیوالے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے اعتماد ظاہر کیا کہ نئے بھارتی ہائی کمشنر دونوں ممالک کو قریب لانے کے لئے کام کریں گے۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے باہمی تعاون ضروری ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے اور مضبوط بنانے میں ان کا کردار مفید ثابت ہو گا۔