افغانستان، جرمن فوج، نیٹو، دہشت گردی، فوجی انخلاء
30 مئی 2011شمالی افغانستان میں گزشتہ ہفتے کے روز ہونے والے حملوں میں دو جرمن فوجیوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ ان واقعات نے افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی دستوں کے مابین سلامتی کے امور سے متعلق پارٹنرشپ کی ساکھ کو دھچکہ پہنچایا ہے۔
تازہ ترین حملے افغانستان کی پریشان کن صورتحال کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو مزید پختہ کرنے کا سبب بنے ہیں۔ افغانستان میں تعینات 50 جرمن اور بین الاقوامی دستوں کے قریب 2500 فوجی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ انتہا پسند روز بروز خطرناک سے خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ وفاقی جرمن حکومت اس اثناء میں اپنے جرنیلوں کے تحفظ کے لیے ممکنہ اقدامات کرتی رہی ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والے حملے میں ملوث حملہ آوروں میں سے ایک غالباً افغان پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔ اس کارروائی نے اُن افراد کے دعووں کو مزید تقویت دی ہے، جو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کی پولیس کی تربیت بد حال ہے۔ یہ ذمہ داری بھی جرمن فوجیوں پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم محض جرمن فوجیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا غیر منصفانہ عمل ہے۔ بظاہر خفیہ سروسز نے اس حملے سے قبل اس کے خلاف خبردار بھی کر دیا تھا۔
افغانستان کے سلامتی کے محکمے کے بنیادی ڈھانچے میں پائے جانے والے نقائص کو ایک عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افغان پولیس اور فوج دونوں کے اندر شہری ذمہ داری اور قومیت کے شعور کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کے بجائے قبیلوں اور گروپوں کے ساتھ ہمدردی کا قدیم جذبہ اب بھی بہت زیادہ کار فرما ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو ان کی ذمہ داریوں کی نسبت تنخواہیں بھی بہت کم دی جاتی ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں کا اتنی قلیل تنخواہ کے ساتھ پیٹ نہیں پال سکتے۔ اسی باعث پولیس اور فوج دونوں اداروں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی عام ہے۔ ایسی صورتحال میں ملکی سلامتی اور استحکام کی فضا ہمیشہ ہی بے یقینی کا شکار رہتی ہے اور امن عامہ کو مزید خراب کرنے والوں کی دکانداری اور بھی چمکتی ہے۔
ان حالات میں ملکی سلامتی کی ذمہ داری افغان اداروں کو سونپنے کا عمل ایک بڑا خطرہ ہے۔ حالیہ حملہ طرفین کے مابین بے اعتمادی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی سطح پر افغانستان متعینہ فوجیوں کے انخلاء کے منصوبے پر کوئی بھی کوئی سوال اٹھانے پر رضامند نظر نہیں آ رہا، نہ امریکہ اور نہ ہی جرمنی۔
تبصرہ: ڈینیئل شیشکےوٹس / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک