1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے بعد جرمن افواج کا مستقبل

نِینا ویرک ہاؤئز / امتیاز احمد10 ستمبر 2013

گزشتہ چار برسوں کے دوران جرمن افواج کی افغانستان میں تعیناتی ایک اہم موضوع بنی رہی ہے۔ حالیہ چند برسوں میں کئی جرمن فوجی ہلاک ہوئے اور افغانستان سے انخلاء کی پالیسی بھی تاخیر کا شکار رہی۔

https://p.dw.com/p/19eTJ
تصویر: Reuters

افغانستان کی موجودہ صورتحال سے سیاسی جماعتوں نے مختلف نتائج اخذ کیے ہیں۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کے انتخابی پوسٹرز پر جلی حروف میں ’ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی! بیرون ملک آپریشن ختم!‘ جیسے نعرے درج کیے گئے ہیں۔ جرمن پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی یہ واحد جماعت ہے، جو اپنی افواج کے بیرون ملک تمام مشن ختم کرنا چاہتی ہے اور ان میں افغانستان بھی شامل ہے۔

اس جماعت کے پارلیمانی رکن ’جان فان آکن‘ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی پارٹی جمہوری سوشلزم کی نمائندہ جماعت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انتخابی مہم کی حکمت عملی طے کرنے والے مجھے بتاتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ووٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے لیکن میں اس تھیوری پر مکمل یقین نہیں رکھتا۔‘‘

فی الحال افغانستان کے شمال میں چار ہزار سے زائد جرمن فوجی تعینات ہیں۔ سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کے برعکس دیگر جماعتیں افغان مشن کو کامیاب تصور کرتی ہیں۔ تاہم افغان مشن کو ایک مشکل مشن تصور کیا جاتا ہے اور اس نے بیرون ملک جرمن مشنز کے بارے میں عوامی اور سیاسی رائے کو شدید متاثر کیا ہے۔

Infografik Auslandseinsätze der Bundeswehr Englisch
جرمن افواج کے بیرون ملک آپریشنز

ایک درد ناک تجربہ

جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک اپوزیشن جماعت ’ایس پی ڈی‘ کے رکن پارلیمان ’ہانس پیٹر بارٹیلز‘ کہتے ہیں کہ افغانستان میں 80 سے زائد ممالک کا مقصد افغانستان کی تعمیر نو، سارے ملک میں استحکام اور قوم کو ایک نئی شکل دینا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’نئی قوم اور نئے افغانستان کا نعرہ افغانستان کے اندر کی بجائے باہر سے لگایا گیا تھا اور شاید بیرونی مدد (بیرونی مطالبات) ہی افغانستان کے اندرونی تشخص کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔‘‘

ہانس پیٹر بارٹیلز کے مطابق بیرونی دنیا کے دعوے اور توقعات بہت بڑی تھیں، اسی وجہ سے شروع ہی میں فوجی سازو سامان میں کمی محسوس کی گئی۔ سن 2002ء میں صرف چند سو جرمن فوجی افغانستان بھیجے گئے تھے، جو تباہ حال کابل میں پیدل گشت کرتے تھے۔ یہ تعیناتی محدود مدت کے لیے تھی اور اس کا مقصد دارالحکومت میں استحکام لانا تھا۔ لیکن بین الاقوامی برادری کے یہ تمام اعداد وشمار غلط ثابت ہوئے۔ طالبان عوام کو دہشت زدہ کرتے رہے، نہ صرف نئی حکومت کمزور تھی بلکہ سکیورٹی فورسز کا بھی برا حال تھا۔ اس کے بعد جرمن وفاقی حکومت کا نعرہ یہ تھا کہ جرمن سلامتی کا دفاع ہندوکُش میں کیا جائے گا۔

نامعلوم اہداف

وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امدادی فوج ISAF کی چھتری تلے افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ سن 2010ء میں ان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ آغاز میں یہ تعداد صرف پانچ ہزار تھی۔ اس بڑی تعداد کے باوجود افغانستان کے صرف چند ہی حصوں میں امن قائم ہو سکا۔ جرمنی میں سابق وزیر دفاع کارل تھیوڈر سُو گٹن برگ تھے جنہوں نے آٹھ سال کے دورن افغانستان کے لیے ’جنگکا لفظ استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان آپریشن ایک ایسی سُرنگ ثابت ہو رہا ہے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے بعد ایک جرمن کمانڈر کے احکامات پر قندوز میں فضائی بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں درجنوں افغان شہری مارے گئے۔ یہ خبر عام ہونے کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع فرانس یوزف یونگ کو مستعفی ہونا پڑا۔

برسر اقتدار حکومت کے رکن پارلیمنٹ ’روڈیرش کیزے ویٹر‘ کے مطابق جرمن سیاستدانوں نے اُس وقت دیگر آپشز پر غور کرنا شروع کیا، جب اس کے درجنوں فوجی مارے جا چکے تھے۔ افغانستان میں کم از کم 35 جرمن فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ایک بڑا نقصان ہے۔ دریں اثناء افغانستان سے جرمن لڑاکا افواج کا انخلاء شروع ہو چکا ہے اور یہ سن 2014ء میں اختتام پذیر ہو گا۔

مستقبل میں جرمن افواج کے مشن ؟

جنگی محاذوں کی تیاری کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے جرمن افواج کی تشکیل نو کی جارہی ہے۔ لیکن مستقبل میں کن بنیادوں پر کسی جنگی آپریشن میں شمولیت اختیار کی جائے گی ابھی تک غیر واضح ہے۔ جرمنی کی تمام سیاسی جماعتیں اس بارے میں ایک دوسرے سے مختلف موقف رکھتی ہیں اور جرمن انتخابات سے پہلے اس پر زیادہ بحث بھی نہیں کی جا رہی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جرمن انتخابات میں سلامتی سے متعلق خارجہ پالیسی کا کردار انتہائی کم ہے۔