1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: کیا طالبان دوبارہ اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں؟

عاطف توقیر17 اپریل 2014

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عوامی سطح پر مقبولیت انتہائی کم ہے اور اگر یہ عسکریت پسند افغان معاشرے میں انضمام چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی سیاست میں تبدیلی لانا ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1Bk0u
تصویر: picture alliance / Ton Koene

جواد رحیمی اس وقت ایک طالب علم تھے، جب طالبان افغانستان کے تقریباﹰ نوے فیصد علاقے پر حکومت کر رہے تھے۔ تاہم انہیں اس وقت اسلام پسندوں کے ہاتھوں متعدد مرتبہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مغربی صوبے غور کے 32 سالہ رہائشی رحیمی کے مطابق، ’مجھے تین یا چار بار اس بات پر مارا گیا کہ میں نے اپنے بال کیوں لمبے کیے اور میری داڑھی کیوں چھوٹی ہے۔‘

اس کے باوجود رحیمی کا خیال ہے کہ اگر طالبان تشدد کا راستہ چھوڑ دیں، تو انہیں معاشرتی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ضرور فراہم کیا جانا چاہیے۔

افغان امور کی ماہر کیٹ کلارک کے مطابق طالبان افغانستان میں بطور لڑاکا اپوزیشن اپنی حکمرانی کے دور سے بدترین سرگرمیوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ کابل میں قائم تحقیقی نیٹ ورک سے وابستہ کلارک کے مطابق، ’وہ منظم اور متحد طاقت تھے۔ جنہوں نے متعدد مرتبہ جنگی جرائم تک کا ارتکاب کیا۔ وہ حکومت میں نہ ہوئے تو شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کر سکتے ہيں اور انہیں یہی لگے گا کہ وہ ایک درست عمل کر رہے ہیں۔‘

Afghanistan Präsidentschaftswahl 2014
حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام نے بھرپور شرکت کیتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

کم حمایت

یونیورسٹی پروفیسر اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن حمیرہ حکمل کے مطابق، پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے افغان عوام میں طالبان کے لیے حمایت نہایت کم ہے۔

افغانستان میں سن 1992ء میں سابقہ سوویت یونین کی حمایت یافتہ کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کے دور میں افغان مجاہدین نے نسلی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر مردوں اور عورتوں کا قتل عام کیا، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے موقع پر ملا عمر کی قیادت میں مذہبی و سیاسی تحریک طالبان نے اس خانہ جنگی کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا اور افغان عوام نے امن و سلامتی کے لیے مجاہدین پر ان طالبان کو فوقیت دی۔ طالبان نے اس کے بعد کئی برس تک ملک کے 90 فیصد سے زائد علاقے پر حکمرانی کی۔ تاہم گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہ کرنے پر امریکی فورسز نے شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

حکمل کے مطابق طالبان اپنے دور حکومت اور عسکریت پسندی، دونوں مواقع پر افغان عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کا بڑا ٹرن آؤٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام ملک میں جمہوریت کے خواہاں ہیں اور وہ طالبان کے نظریے کی مخالفت کرتے ہیں۔