1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی صورتحال پر یورپی یونین کا اجلاس

15 ستمبر 2009

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس آج برسلز میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں افغانستان میں آئندہ لائحہ عمل پر تبادلہء خیال کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/JfEi
تصویر: AP
Afghanistan Wahlen
افغان انتخابات میں حامد کرزئی کے خلاف دھاندلی کے الزامات ہیںتصویر: AP

یورپی یونین کو دھاندلی کے اُن بے شمار الزامات پر تشویش لاحق ہے، جو بیس اگست کو افغانستان میں صدارتی انتخابات کے انعقاد کے بعد سے موجودہ افغان صدر حامد کرزئی کے سب سے قریبی حریف عبداللہ عبداللہ ہی کی جانب سے نہیں بلکہ کئی دیگر غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ تاہم آج برسلز میں اپنے اجلاس میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نہ صرف اپنی اِس تشویش پر بات کریں گے بلکہ اُس بین الاقوامی کانفرنس کی تیاریاں بھی عمل میں لائیں گے، جس میں افغانستان کی ایک قومی فوج اور پولیس کے قیام کے ٹائم ٹیبل کا تعین کیا جائے گا۔

مقصد اِس ساری بحث کا یہ ہے کہ جیسے ہی افغانستان اپنی سلامتی کو خود کنٹرول کرنے کے قابل ہو جائے گا، وہاں سے بین الاقوامی دستے واپس بلا لئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کی ایک تازہ تجویز کی یورپ بھر میں پذیرائی کی جا رہی ہے۔ ابھی دو روز پہلے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ٹیلی وژن پر مباحثے کے دوران شٹائن مائر نے افغانستان سے فوجی دَستوں کے انخلاء کے مطالبے پر زور دیتے ہوئےکہا تھا:

’’ہم نے یہ نہیں کہا کہ سن 2013ء میں ہم افغانستان سے فوجی دَستے نکال لیں گے بلکہ یہ کہ اگلی آئینی مدت کے اندر اندر سن 2013ء تک ہم ایسے حالات پیدا کریں گے کہ فوجی دَستوں کا انخلاء شروع ہو سکتا ہو۔ ہمارا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ افغانستان میں ہماری مزید ضرورت باقی نہ رہ جائے اور یہ تبھی ممکن ہے، جب وہاں کی سیکیورٹی فورسز خود اپنے معاملات سنبھال سکیں۔‘‘

فرانک والٹر شٹائن مائر کی اِس تجویز کا کل پیر کو اُن کے کئی یورپی ہم منصبوں نے خیر مقدم کیا۔ برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ہی کے ایک اجلاس کے موقع پر یونین کے موجودہ صدر ملک سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بِلٹ نے امید ظاہر کی کہ ایک مخصوص مرحلے پر افغانستان میں ایک ایسا عمل شروع کیا جا سکے گا، جس میں فوجی پہلو کم اور سیاسی پہلو زیادہ ہو گا۔ تاہم بِلٹ نے کہا، یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا تین یا چار برسوں میں ممکن ہو سکے گا۔ لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں اَیسل بورن نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا لیکن کہا کہ وہ وقت مستقبل میں بہت دور نہیں ہونا چاہیے، جب یہ طے ہو جانا چاہیے کہ اب افغان اپنی سلامتی کا ا نتظام خود سنبھالیں گے۔

Flash-Galerie Frank-Walter Steinmeier Wahlkampf 2009
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائرتصویر: AP

واضح رہے کہ افغانستان میں جھڑپوں میں شدت آ جانے کے بعد وہاں یورپی فوجی دَستوں کی موجودگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شکوک و شبہات ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق جرمنی اور برطانیہ میں عوام کی اکثریت افغانستان سے فوجی دستے واپس بلانے کے حق میں ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں