1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان چھوڑ کر يورپ جانا ’زندگی اور موت‘ کا معاملہ

عاصم سليم4 نومبر 2015

متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی افغان شہری غير قانونی اور خطرناک طريقے اختيار کر کے يورپ کا رخ کر رہے ہيں۔ ايسے افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں ان کا کوئی مستقبل نہيں۔

https://p.dw.com/p/1GzGS
تصویر: Reuters/L. Foeger

افغانستان ميں متوسط طبقے کے ايک گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد فہيم آزار کے ليے ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد کئی دروازے کھلے تھے۔ اس کے پاس اپنے ملک ميں کالج جانے کے ليے وسائل دستياب تھے تاہم اس نے اپنے ليے ايک بالکل ہی الگ فيصلہ کيا۔ فہيم نے 5,600 ڈالر خرچ کرتے ہوئے ترکی کا ويزہ ليا اور ٹکٹ خريدا، جہاں سے وہ پھر اپنے ملک کے ديگر کئی شہريوں کی طرح مغربی يورپ جانے کے ليے خطرناک اور غير واضح سفر اختيار کرے گا۔

انيس سالہ فہيم کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان ميں جنگ و جدل اور ملازمت کے مایوس کن مواقع سے تھک چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’يہاں ہر روز خود کش دھماکے ہوتے ہيں۔ گھر سے نکلتے وقت ايک شخص کو يہ معلوم نہيں ہوتا کہ وہ واپس آئے گا بھی يا نہيں۔‘‘

يہ افغان نوجوان يورپی رياست فن لينڈ جانا چاہتا ہے۔ يورپ کو ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرين کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اندازوں کے مطابق مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور ديگر شورش زدہ ممالک سے اس سال سات لاکھ سے زائد افراد پناہ کے ليے يورپ پہنچ چکے ہيں۔ ان پناہ گزينوں ميں شامی شہريوں کے بعد سب سے بڑی تعداد افغان باشندوں کی ہے۔ مہاجرين کی کُل تعداد ميں سے قريب بيس فيصد حصہ افغان مہاجرين پر مشتمل ہے۔

افغانستان ميں قريب چودہ سالہ امريکی آپريشن کے باوجود يہ ملک اب بھی شدت پسندی کا شکار ہے۔ کئی بلين ڈالر کی بين الاقوامی امداد کے بعد بھی افغانستان ميں غربت اور بے روزگاری عام ہے۔ ايسے حالات ميں افغانستان سے ترک وطن کرنے والوں ميں متوسط گھرانوں کے ايسے بہت سے نوجوان شامل ہيں، جو اس ملک کی تعمير نو ميں اہم کردار ادا کر سکتے ہيں۔

محمد فہيم کہتا ہے کہ جو لوگ اس وقت افغانستان ميں ملازمت کر رہے ہيں يا پڑھ رہے ہيں، وہ بھی اس پر يقين نہيں رکھتے کہ وہ افغانستان کے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہيں۔ فہیم کے بقول بھی يہ ممکن نہيں ہے۔ وہ مزيد کہتا ہے، ’’افغانستان کے حوالے سے ہماری اميديں ختم ہو چکی ہيں اور ہمارا اعتماد ختم ہو چکا ہے اور اسی ليے سب يہاں سے رخصت ہونا چاہتے ہيں۔‘‘ فہیم افغانستان چھوڑنے کے اپنے فيصلے کا موازنہ ’زندگی اور موت‘ کے معاملے سے کرتا ہے۔

گزشتہ برس يورپ پہنچنے والے افغان مہاجرين کے حوالے سے تفصيلات
گزشتہ برس يورپ پہنچنے والے افغان مہاجرين کے حوالے سے تفصيلات

افغانستان ميں 2001ء ميں طالبان کی حکومت گرنے کے بعد سے مہاجررت اختیار کرنے والوں میں سے اب تک تقريباً 5.8 ملين افغان مہاجرين اپنے وطن لوٹ چکے ہيں تاہم پچھلے پانچ برسوں سے اس سلسلے ميں کچھ کمی رونما ہوئی ہے۔ پھر گزشتہ دو سالوں کے دوران جيسے جيسے وہاں کوليشن افواج نے انخلاء کا مکمل کيا، طالبان کی کارروائیاں دوبارہ شدید ہو گئيں۔ ساتھ ساتھ بين الاقوامی امداد ميں بھی کمی ہوتی رہی اور يوں افغان شہريوں کے ليے مواقع اور بھی کم ہوتے رہے۔ متعلقہ وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت افغانستان ميں بے روزگاری کی شرح چوبيس فيصد ہے۔

افغان وزير برائے مہاجرين حسين اليمی بلخی کے مطابق اس سال اب تک قريب ایک لاکھ بیس ہزار افغان شہری اپنا وطن ترک کر چکے ہيں جبکہ سال کے اختتام تک يہ تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ ان ميں بہت سے تعليم يافتہ افغان بھی ہيں، جو پہلے بھی اپنا ملک چھوڑ چکے تھے ليکن حالات ميں بہتری کے سبب وہ ايک مرتبہ پھر اپنے وطن لوٹ آئے تھے۔

محسن حسينی ايک فنکار ہيں۔ انہوں نے اپنے بچپن ہی ميں افغانستان سے رخصتی اختيار کر لی تھی ليکن 2001ء ميں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپس لوٹ آئے۔ گزشتہ برس اشرف غنی کے صدر بننے پر وہ کافی پر اميد تھے ليکن غنی تاحال ترقی کے اپنے وعدوں کو حقيقت نہيں کر پائے ہيں۔ دارالحکومت کابل سے بات کرتے ہوئے حسينی کہتے ہيں، ’’ميں نے بہت کوشش کی کہ ميں يہيں قيام کروں ليکن ميں يہ نہيں کر سکتا۔‘‘ اس افغان فنکار کے مطابق وہ بيس برس تک ايران ميں تھے اور اس وقت وہ اپنے والدين پر يہ الزام عائد کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بہتر زندگی فراہم نہيں کی۔ ليکن اب جب کہ وہ خود ايک والد ہيں، ان کے بقول وہ يہ جانتے ہيں کہ افغانستان ان کے بچوں کے ليے زيادہ موزوں جگہ نہيں۔