1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، پولیس اور فوج کی وردیاں فروخت کے لئے عام

22 نومبر 2010

افغانستان میں پولیس اور فوج کی وردیاں عام دکانوں پر بیچی جاتی ہیں۔ ان وردیوں میں ملبوس حملہ آوروں کی کارروائیوں میں روز افزوں اضافے نے اب اس بحث کو جنم دے دیا ہے کہ آیا، اس طرح ان وردیوں کی فروخت مناسب ہے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/QFLe
افغانستان کی خواتین فوجیتصویر: AP

کابل میں صدارتی محل کے قریب ہی واقع ایک مارکیٹ میں محمد ذبیح ایسی ہی ایک دکان چلا رہے ہیں، جہاں پولیس اور فوج کی وردیاں بیچی جاتی ہیں۔ اس دکان پر ان وردیوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام اشیاء بھی دستیاب ہیں، جو سکیورٹی گارڈز، پولیس اور فوج کی وردیوں کے ساتھ ضروری ہوتی ہیں۔ یہاں ایک مکمل وردی آٹھ سو افغانی میں خریدی جا سکتی ہے۔

وزرات داخلہ کے مطابق اس طرح سے یہ وردیاں اور ان سے جڑے دیگر لوازمات بیچنا غیر قانونی ہے تاہم محمد ذبیح کے مطابق وہ سامان بیچتے ہوئے تمام حفاظتی امور کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سامان صرف سکیورٹی ایجنسیوں کو جائز طریقے سے فروخت کیا جاتا ہے،’اگر خریدار کے پاس مناسب شناختی دستاویزات نہ بھی ہوں تو میں اس کی شکل دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وہ یہ سامان کیوں خریدنا چاہتا ہے‘۔

Afghanistan Armee Dschalalabad Luftwaffenstützpunkt
فوجیوں کی وردی میں ملبوس دہشت گرد اکثر ہی حملے کرتے ہیںتصویر: AP

چوالیس سالہ محمد ذبیح نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’اگر میرے پاس ایسے خریدار آتے ہیں، جن کی لمبی لمبی داڑھیاں ہوں اور وہ کابل کے مقامی لہجے میں بات نہ کر سکتے ہوں یا ان کے پاس شناختی دستاویزات نہ ہوں تو میں انہیں کچھ نہیں بیچتا ہوں‘۔

دیگر کئی دکانداروں کی طرح ذبیح کے پاس بھی لائسنس ہے لیکن صدر حامد کرزئی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ یہ بزنس انتہائی پُرخطر ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان Zemari Bashary کہتے ہیں، ’عسکری سامان اور پولیس کی وردیوں کی کھلےعام خرید و فروخت مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ حکومت ایسی تمام دکانوں کو بند کرنے کا عمل جاری رکھے گی، جہاں یہ سامان بیچا جاتا ہے‘۔

بُش بازار میں، جس کا نام سابق امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کے نام پر رکھا گیا ہے، ایسی درجنوں دکانیں ہیں، جہاں وردیوں، بوٹوں، متعدد قسم کے چاقوؤں، حتیٰ کہ رات کے وقت دیکھنے میں مدد دینے والے آلات تک ہر طرح کا امریکی فوجی ساز و سامان خریدا جا سکتا ہے۔

عبید نامی ایک دکاندار نے کہا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس گاہک بھی اُس سے یہ کہہ کر خریداری کر سکتے ہیں کہ وہ فوج کے کسی رکن کے رشتے دار ہیں۔ عبید نے کہا، ’اگر مَیں اُنہیں چیز نہیں بیچوں گا تو وہ وہی چیز جا کر اگلی دکان سے خرید لیں گے، ایسے میں مَیں کیوں اُنہیں ہٹاؤں‘۔

پولیس یا فوج کی ودریوں میں ملبوس انتہا پسند اپنی دہشت گردانہ کارروئیوں کو سر انجام دینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح وہ کئی چیک پوائنٹس کو عبور کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ہی فوج کی وردی میں ملبوس آٹھ انتہا پسندوں نے جلال آباد میں واقع غیر ملکی افواج کے ایک اہم فوجی اڈے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ اگرچہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اس حملے کے بعد یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ کیا کھلے عام دکانوں پر فوج اور پولیس کی وردیاں بیچی جانی چاہئیں یا نہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں