1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Kritische Stimme

2 اگست 2011

فہیم دشتی طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد افغانستان کے بدلے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں پریس کی آزادی کے معروف علمبرداروں میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنی رپورٹوں میں بلا خوف و خطر ناقدانہ نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11tUY
افغان صحافی فہیم دشتی
افغان صحافی فہیم دشتیتصویر: DW / M. Gerner

گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں نے پورے افغانستان کو بدل کے رکھ دیا تھا تاہم افغانستان کے بہت سے شہریوں کے لیے اُس سال گیارہ ستمبر کی بجائے اُس سے دو روز پہلے نو ستمبر 2001ء کو پیش آنے والا واقعہ ابتدائی طور پر زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اُس روز القاعدہ کے دہشت گردوں نے افغانستان کے مشہور ترین مزاحمتی قائد احمد شاہ مسعود کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ احمد شاہ مسعود شمالی اتحاد کے منصوبہ ساز کے طور پر ملک کے اُس آخری حصے کا دفاع کر رہے تھے، جس پر ابھی طالبان قبضہ نہیں کر سکے تھے۔

احمد شاہ مسعود پر ہونے والے اس حملے کو فہیم دشتی نے بہت ہی قریب سے دیکھا۔ اُس حملے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے 38 سالہ فہیم دشتی نے بتایا:’’مَیں اُن لوگوں کے بہت ہی قریب بیٹھا تھا، جن کے پاس بارودی مواد تھا۔‘‘ مسعود کے اردگرد حاضرین کا ایک دائرہ سا بنا ہوا تھا، جن میں دشتی کے ساتھ ساتھ دو صحافی بھی شامل تھے۔ چند سیکنڈ بعد ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہی صحافی دراصل دہشت گرد تھے:’’مَیں اُن دونوں کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جبکہ بارودی مواد سامنے کی طرف پھٹا۔‘‘

ستمبر کا نتیجہ خیز دن

القاعدہ کی طرف سے بھیجے گئے ان صحافیوں نے اپنے کیمرے کے اندر سے بارودی مواد چھوڑا، جس کے نتیجے میں دائرے میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ انہی میں احمد شاہ مسعود بھی تھا، جس نے طالبان اور اُن سے پہلے روسی قبضے کے خلاف جنگ میں ایک کرشماتی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ دشتی اُس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:’اصل میں تو مجھے سب سے پہلے اس حملے کی زَد میں آنا چاہییے تھا۔مَیں اُن دونوں حملہ آوروں سے محض نصف میٹر پیچھے بیٹھا تھا جبکہ مسعود اور دیگر لوگ دو سے لے کر تین میٹر تک دور تھے۔‘‘ اگرچہ دشتی اس حملے میں زندہ بچ گئے تاہم اُن کا بدن زخموں کے نشانات سے بھرا ہوا ہے۔ بال جل کر کوئلہ ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جسم کے زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں تاہم مسعود کی موت دشتی کی زندگی میں ایک بڑا خلاء چھوڑ گئی ہے۔

فہیم دشتی ماضی میں طالبان کے خلاف برسرپیکار مجاہدین میں شامل رہ چکے ہیں
فہیم دشتی ماضی میں طالبان کے خلاف برسرپیکار مجاہدین میں شامل رہ چکے ہیںتصویر: DW/M.Gerner

مسعود اور دشتی کو گہرے رشتے میں پرونے والی قدر مشترک اُن کا ایک ہی آبائی علاقہ ہے۔ دونوں کا تعلق پنج شیر وادی سے ہے، جو روسی قبضے کے دوران افغان مزاحمت کا گڑھ رہی ہے۔ یہ علاقہ روسی قابضوں کے دانت کھٹے کرتا رہا تھا، جس کا ثبوت ٹینکوں کے وہ بے شمار ٹکڑے ہیں، جو آج بھی اس پوری وادی میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ اپنے بڑے آئیڈیل مسعود کا ذکر کرتے ہوئے دشتی کہتے ہیں:’’سرخ فوج نے سات مرتبہ فضا اور زمین سے حملے کیے لیکن وہ کبھی بھی پوری وادی پر قبضہ نہ کر سکی اور یہ مسعود ہی کا کارنامہ تھا۔‘‘

فہیم دشتی نے اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہی مسعود کے جنگجوؤں کے ساتھ ایک رپورٹر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1993ء میں ہی مسعود کی پارٹی کا ہفت روزہ ’کابل ویکلی‘ شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔

میڈیا کی آزادی کی قیمت

2002ء میں دشتی نے ’کابل ویکلی‘ کو نئے سرے سے شروع کیا۔ طاالبان کے دور میں جنگ کی وجہ سے یہ اخبار شائع نہ ہو سکا۔ جہاں تک کرزئی حکومت کا تعلق ہے، فہیم دشتی شروع سے ہی اِس کے ناقد رہے ہیں۔ دشتی کے مطابق کرزئی کے فیصلے جمہوری اصولوں سے زیادہ افغان قبائلی معاشرے کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتے ہیں۔ کرزئی پر تنقید کے باعث دشتی کو شروع ہی سے دھمکیاں ملنے لگی تھیں۔ پھر 2009ء کے انتخابات ہوئے، جن میں دشتی کے بقول ایک ملین سے زیادہ جعلی ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ جب ’کابل ویکلی‘ نے اس طرح کی خبریں شائع کیں تو کرزئی کے حامی اداروں نے اِس جریدے کو اشتہارات دینا بند کر دیے، یہاں تک کہ اِس سال مارچ میں ’کابل ویکلی‘ کو مکمل طور پر بند کیا جانا پڑا۔

کابل میں فہیم دشتی اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ سوویت دور کی ایک کئی منزلہ عمارت کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں
کابل میں فہیم دشتی اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ سوویت دور کی ایک کئی منزلہ عمارت کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیںتصویر: DW/M.Gerner

غیر ملکی دستوں کے انخلاء کے بعد غیر یقینی مستقبل

فہیم دشتی کے مطابق افغانستان میں مغربی دُنیا کے مشن کے کئی اچھے پہلو بھی ہیں: ہماری پانچ ہزار سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ افغانوں نے اپنی سرزمین پر غیر ملکی موجودگی کو قبول کیا ہے۔‘‘

کابل میں فہیم دشتی اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ سوویت دور کی ایک کئی منزلہ عمارت کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ جہاں دشتی ابھی بھی مسعود کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، وہاں کابل کے بہت سے دیگر شہری مسعود کو بھی 90ء کے عشرے کی بمباری اور اُن ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، جو افغان دارالحکومت پر قبضے کے لیے مجاہدین کے مختلف گروپوں کے درمیان ہونے والی جنگ میں ہلاک ہوئے۔

دشتی آج کل کے حالات کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں طالبان کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ دشتی 2014ء تک نیٹو دستوں کے انخلاء کو بھی ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں مغربی دُنیا کو یہ جنگ کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچانی چاہیے ورنہ کل کلاں ممکن ہے کہ یہی جنگ برلن، پیرس، لندن، میڈرڈ اور امریکہ میں لڑی جائے۔

رپورٹ: مارٹن گیرنر / امجد علی

ادارت: امتیاز احمد