1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں قیام امن کی خاطر تاریخی بهوک ہڑتال

شادی خان سیف، کابل
30 مارچ 2018

افغانستان کے شورش زده صوبے ہلمند میں مقامی افراد نے طالبان اور کابل حکومت پر قیام امن کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنی نوعیت کی پہلی بهوک ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2vECS
Afghanistan Helmand Anschlag Autobombe
تصویر: picture-alliance/abaca/A. Hadi Roshan

افغانستان کے جنوب میں اس تاریخی عوامی تحریک کی بنیاد گزشته ہفتے پڑی جب لشکر گاه شہر کے غازی محمد ایوب خان اسٹیڈیم کے باہر ایک کار بم دهماکے نے 15 نہتے شہریوں کی جان لے لی، جو کُشتی کا ایک مقابله دیکهنے کے بعد گهر لوٹ رہے تھے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد اوائل میں ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکر گاه میں سول سوسائٹی کے ارکان نے احتجاجی خیمے کهڑے کر ڈالے، جسے ’’ہلمند پرلت‘‘ یا ہلمند دهرنے کا نام دیا گیا اور ان کا نعره تها، ’لہ لشلرگاہ تر موسی قلعه د سولی حرکت‘‘، یعنی ’’لشکرگاه سے موسیٰ قلعه امن کی تحریک‘‘۔

امریکی عہدیدار کا دورہ پاکستان: مسئلہ افغانستان ہے یا کچھ اور بھی؟

'حرکت المجاہدین کے شریک بانی کی پاکستان میں آزاد نقل و حرکت‘

وسطی ایشیائی ریاستیں طالبان کے ساتھ امن کیوں چاہتی ہیں؟

منتظمین نے طالبان کے زیر اثر ضلع موسیٰ قلعه تک ایک امن کاروان لے جانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس تحریک میں غیر معمولی طور پر خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت بهی اپنی نوعیت کی اہم پیش رفت ہے۔ جمعرات 29 مارچ کو دهرنے کے شرکا نے طالبان باغیوں اور حکومت پر مزید دباؤ بڑهانے کی خاطر بهوک ہڑتال شروع کر ڈالی۔

مقامی آبادی کے اس غیر معمولی اقدام کے جواب میں طالبان کی جانب سے ایک صوتی پیغام جاری کیا گیا۔ قاری یوسف احمدی نامی طالبان کے ایک ترجمان نے اس پیغام میں کہا که ان کی قیادت کا مطالبه ہے که قندهار اور ہلمند سے غیر ملکی افواج کو نکالا جائے۔

ہلمند کے ایک سماجی کارکن سیف الله نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که جنگ سے بیزار افغان عوام جنازے اٹها اٹها کر تهک چکے ہیں۔ ’’ہماری یه تحریک جاری رہے گی، اس وقت تک جب تک جنگ میں شریک گروه اور حکومت فائر بندی کا اعلان نہیں کر دیتے۔‘‘ ہلمند دهرنے کی خاتون شرکاء میں سے ایک باچا گله کا کہنا تها که دهائیوں سے جاری خون خرابے نے بہت سی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو غم میں مبتلا کر رکها ہے۔ ’’ہم طالبان اور حکومت کو خدا کا واسطه دیتے ہیں که اس جنگ کو بس اب ختم کر دیں‘‘۔

افغانستان میں ہر برس جنگ کے فریقین کے علاوه ہزاروں عام شہری اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ اقوام متحده کے افغانستان میں امدادی مشن ’یوناما‘ کے مطابق گزشته برس دیگر افراد کے علاوه 359 خواتین ہلاک اور 856 زخمی ہوئیں۔

طالبان نے فی الحال صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے قیام امن کی غیر معمولی پیش کش کا جواب نہیں دیا ہے۔ صدر غنی نے فروری میں ’کابل پروسس‘ کی نشت کے دوران اعلان کیا که طالبان کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا جاسکتا ہے، اگر وه آئین کو تسلیم کرکے دہشت گردی سے ناطه توڑ دیں۔ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے مدعے پر صدر غنی کے سیاسی مشیر محمد اکرم خپلواک نے گزشته روز ایک مقامی ریڈیو کو بتایا که اس موضوع پر پیش رفت محض اس وقت ممکن ہے، جب طالبان امن مذاکرات کے لیے حاضر ہوجائیں۔

واضح رہے که افغانستان کے لیے سابقه امریکی پالیسیوں کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں فوجی انخلا کے لیے کوئی مشخص تاریخ دینے کے بجائے ’جیت‘ کو فوقیت دی گئی ہے، جس سے اس جنگ زده ملک میں غیر ملکی فوجیوں کے لامحدود وقت تک موجودگی کا اشاره ملتا ہے۔ طالبان امور کے ماہر سید اکبر آغا کے بقول یهی نکته تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان کا ماننا ہے که غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل اعلان کرکے ہی طالبان کو امن مذاکرات کے لیے راغب کیا جاسکتا ہے۔

ان سب معاملات کے پسِ منظر میں افغانستان میں موسم بہار کی آمد کے ساته ہی نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ کابل حکومت نے مسلح باغیوں کے خلاف ملک بهر میں ’نصرت‘ نامی فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور اگر ہلمند کے احتجاجی مرد و حضرات کی بهوک ہڑتال بهی قیام امن میں ناکام رہی تو جلد ہی طالبان بهی اپنی نئی سالانه کارروائیوں کا اعلان کر سکتے ہیں۔