افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی صورت حال اور صدارتی انتخابات
3 اگست 2009ساتھ ہی اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف ناکافی کوششوں کے الزامات کا تبادلہ بھی جاری ہے۔
افغانستان میں امن و امان کی مسلسل خراب ہوتی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ شدت پسند 20 اگست کے صدارتی انتخابات کو بہر صورت ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
رواں ماہ کے پہلے دو روز میں پے درپے نیٹو فوجیوں کی ہلاکتیں اور تیسرے روز ہرات میں ایک بم دھماکہ! افغانستان میں اگست کا آغاز اسی طرح ہوا۔ پیر کو مغربی شہر ہرات میں ایک بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 12افراد ہلاک ہو ئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند مقامی پولیس کے سربراہ کو نشانہ بناناچاہتے تھے۔ تاہم ہلاک ہونے والے تمام افراد راہگیر تھے۔
دوسری جانب نیٹو دستے افغان انتخابات کے کامیاب انعقادکو ممکن بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں وہاں گزشتہ کچھ عرصے میں اضافی فوجی بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ پیر کو اپنے ایک بیان میں نیٹو کے نئے سربراہ آندرس راسموسن نے افغانستان جنگ کو نیٹو کی ترجیح قرار دیتے ہوئے اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات کا عندیہ بھی دیا ہے۔
تاہم افغان رکن پارلیمان داؤد سلطان زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اُسی صورت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ان سے اخلاقی اختیار اور اخلاقی جرأت کے ساتھ بات کی جائے:
"اس حیثیت میں طالبان سے مذاکرات افغانستان کی وہی حکومت کر سکتی ہے، جو ایسے اختیار کو یقینی بنا سکتی ہو۔"
طالبان پر قابو پانے میں مذاکرات کی حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم انہیں طاقت سے دبانے میں انتہائی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ افغان حکومت اس کا ذمے دار پاکستان کو بھی ٹھہراتی ہے۔
اُدھر اسلام آباد حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں سے آنے والے شدت پسند پاکستان میں نقص امن پیدا کرتے ہیں۔ تاہم افغانستان نے پاکستانی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا وہ حالیہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان صدر حامد کرزئی نے ملک میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی تسلیم کی ہے۔
رحمٰن ملک نے ایک پاکستانی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا تھا کہ حامد کرزئی نے گزشتہ ماہ ایک اجلاس میں افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سیکیورٹی حکام کو ان کے خاتمے کے لئے ہدایات جاری کی تھیں۔ تاہم افغانستان کے وزیرداخلہ حنیف اتمر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے اس بیان کو بے بنیاد اور حقائق سے منافی قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کے پاس اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کی متعدد ریاستوں سے القاعدہ کے دہشت گرد سرحد پار سے اپنی سرگرمیاں چلا رہے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گل
ادارت: امجد علی