1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغانستان میں زیادہ دیر کے لیے ٹھہریں گے‘، جرمن وزیر دفاع

امجد علی7 دسمبر 2015

اتوار سے افغانستان کے دورے پر گئی ہوئی جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین کے مطابق مغربی دنیا کے فوجی اب اس ملک میں زیادہ دیر کے لیے رکیں گے۔ وہ مزارِ شریف میں تعینات جرمن فوجیوں اور ان کے افسران سے ملاقات کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HIY8
Afghanistan Truppenbesuch Ursula von der Leyen
جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین سات دسمبر کو مزارِ شریف میں ایک تقریب میں افغانستان میں سلامتی کی صورتِ حال اور فوجی مشن کے حوالے سے آگاہی حاصل کر رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

خاتون جرمن وزیر کا شمالی افغانستان کا یہ دورہ کرسمس کے تہوار کی مناسبت سے عمل میں آ رہا ہے۔ اس دورے سے کچھ ہی روز قبل جرمنی نے افغانستان میں سرگرم اپنے فوجیوں کی تعداد کو 850 سے بڑھا کر 980 کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مزارِ شریف میں نیٹو کے اکیس رکن ملکوں سے تعلق رکھنے والے کوئی پندرہ سو فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جن کی بڑی تعداد جرمن فوجیوں پر مشتمل ہے۔ مزارِ شریف میں جرمن دستوں کے کیمپ شاہین کے ایک دورے کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جرمن وزیر دفاع نے کہا کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے افغانستان سے انخلاء کی جو حکمتِ عملی اپنائی، وہ طالبان کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف تھی۔ اُنہوں نے کہا:’’بین الاقوامی برادری نے کچھ زیادہ ہی عجلت میں افغانستان سے واپسی کا اعلان کر دیا، جس سے طالبان کو ایک غلط پیغام ملا۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں طالبان نے افغان حکومت اور افغان فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔‘‘

اگرچہ اُرزولا فان ڈیئر لائن کے مطابق طالبان کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن اچھی بات بہرحال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اب واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ ’ہم زیادہ دیر کے لیے رکیں گے‘۔ واضح رہے کہ نیٹو نے کافی پس و پیش کے بعد گزشتہ منگل کے روز حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ سلامتی کی صورتِ حال چونکہ تناؤ کا شکار ہے، اس لیے دستوں کا انخلاء روکا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے تک کے پروگرام کے مطابق 2016ء میں دستوں کی تعداد میں واضح کمی کی جانا تھی اور فوجیوں کو واپس دارالحکومت کابل میں بلایا جانا تھا۔ مغربی دنیا کی حکمتِ عملی میں یہ تبدیلی اس امر کا اعتراف ہے کہ افغانستان طالبان کے مقابلے پر ملک میں سلامتی کی صورتِ حال کو مستحکم بنانے کے قابل نہیں ہے۔

Afghanistan Truppenbesuch Ursula von der Leyen
خاتون جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین مزارِ شریف میں فوجی دستوں کا معائنہ کر رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جہاں اُرزولا فان ڈیئر لاین نے مغربی ممالک کے فوجی دستوں کے افغانستان میں زیادہ دیر کے لیے رکنے کی بات کی، وہیں اُنہوں نے کچھ شرائط کا بھی ذکر کیا:’’ہم افغانستان میں اپنی ساتھی حکومت کے ساتھ خاص طور پر سیاسی شعبے میں کچھ توقعات بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ آپ ہم پر تکیہ کر سکتے ہیں لیکن یہ کوئی بلینک چَیک نہیں ہے۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان حکومت کے ساتھ جو سمجھوتے طے کیے جائیں گے، اُنہیں درحقیقت عملی شکل بھی دی جائےگی۔‘‘ جرمن وزیر دفاع کا اشارہ دیگر باتوں کے علاوہ اصلاحات کے عمل اور طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل کے احیاء کی جانب تھا۔ پیر کو اُرزولا فان ڈیئر لاین جرمن اور افغان فوجیوں سے اپنے خطاب میں افغان فوج کے تربیتی مشن کے حوالے سے اظہارِ خیال کرنے والی ہیں۔

امریکی حکومت نے اس سال اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ امریکی دستے 2016ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہیں گے۔ واشنگٹن حکومت نے کہا تھا کہ آئندہ پورے سال کے دوران 9800 امریکی فوجی افغانستان میں رہیں گے جبکہ 2017ء کے اوائل میں یہ تعداد ساڑھے پانچ ہزار تک کر دی جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید