1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان ميں ايک اور داخلی حملہ

12 مارچ 2013

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ وردک کے جلريز نامی ضلعے ميں قائم ايک پوليس کمپاؤنڈ ميں پير کے روز ايک افغان سکيورٹی اہلکار نے فائرنگ کر کے دو امريکی اور دو افغان فوجيوں کو ہلاک کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/17vHB
تصویر: Reuters

افغان صوبے وردک کے ڈپٹی پوليس آفيسر عبدالرزاق قريشی نے اس واقعے کی تصديق کرتے ہوئے بتايا کہ متعلقہ افغان پوليس اہلکار نے ايک ٹرک کے پيچھے کھڑے ہو کر پوليس کمپاؤنڈ ميں موجود امريکی اور افغان فوجيوں پر فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتيجے ميں امريکا کی ’اسپيشل آپريشنز فورسز‘ کے دو اہلکاروں سميت دو افغان پوليس اہلکار بھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ واقعے ميں چار افغان سکيورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ بعد ازاں سکيورٹی دستوں کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور بھی مارا گيا۔

خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی ميدان شہر سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق يہ بات ابھی واضح نہيں ہو سکی ہے کہ آيا اس حملہ آور کا ہدف افغان اور امريکی فوجی اہلکار ہی تھے يا ہلاکتيں فائرنگ کے تبادلے کے نتيجے ميں ہوئيں۔ اس بارے ميں بھی کوئی حتمی معلومات سامنے نہيں آ سکی ہيں کہ آيا يہ حملہ وردک کی مقامی آبادی کے درميان امريکی فوج کے خلاف بڑھتی ہوئی کشيدگی کے سبب کيا گيا۔

واضح رہے کہ قريب دو ہفتے قبل افغان صدر حامد کرزئی نے امريکی فوجی دستوں کو يہ احکامات جاری کيے تھے کہ وہ مشرقی صوبے وردک سے نکل جائيں۔ يہ واقعہ پير کے روز اس وقت پيش آيا جب کرزئی کی جانب سے دی گئی ڈيڈ لائن کو گزرے چوبيس گھنٹے بھی مکمل نہيں ہوئے تھے۔

افغان صدر کے احکامات کے باوجود ابھی تک امريکی دستے وردک ميں قيام پزير ہيں۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے اتوار کے روز امريکی اور اتحادی افواج کے اعلیٰ ترين کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا تھا کہ صوبے سے انخلاء کے سلسلے ميں ابھی طريقہ کار اور ٹائم ٹيبل وضع کرنا باقی ہے۔

صوبہ وردک کی حدود دارالحکومت کابل سے صرف پينتاليس کلوميٹر کے فاصلے پر ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ چند اعلیٰ امريکی افسران کا ماننا ہے کہ وردک سے قبل از وقت انخلاء طالبان عسکريت پسندوں کے ليے کابل کا دروازہ کھول دے گا۔ دوسری جانب افغان سکيورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ دارالحکومت عسکريت پسندوں کی پہنچ سے دور ہے۔

واضح رہے کہ اس صوبے ميں رہنے والے بيشتر افراد کے دلوں ميں امريکا مخالف جذبات پائے جاتے ہيں، جن کی وجہ کئی قسم کے الزامات ہيں۔ اس سلسلے ميں آغا مرزا نامی ايک مقامی افغان پوليس اہلکار نے گزشتہ اتوار نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا تھا کہ مقامی لوگ امريکی اہلکاروں سے تنگ آ چکے ہيں۔

محمد نبی نامی ايک اور مقامی شخص نے ايسوسی ايٹڈ پريس کو مطلع کيا کہ قريب تين ماہ قبل اس کے سب سے بڑے بيٹے کو زير حراست لے ليا گيا تھا اور ابھی تک نہ تو اسے يہ بتايا گيا ہے کہ اس کا بيٹا کہاں ہے اور نہ ہی يہ کہ اسے کس جرم ميں گرفتار کيا گيا ہے۔ محمد نبی نے امريکی دستوں پر بدسلوکی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسی سبب کئی لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہيں۔

نيوز ايجنسی ايسوسی اے پی نے اس سلسلے ميں کئی افراد سے بات چيت کی، جن ميں سے بيشتر کو اسی نوعيت کی شکايات تھيں۔ تاہم مقامی لوگوں کو يہ شکايات ’امريکی اسپيشل فورسز‘ کے ارکان سے ہيں، اتحادی فوج ميں شامل عام امريکی فوجيوں سے نہيں۔

ملا محمد قديم نامی ايک مقامی کونسلر نے متنبہ کيا کہ اگر يہ اہلکار وردک سے نہيں نکلتے، تو صوبے کی صورت حال بگڑ سکتی ہے۔

as/at (AP)