1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان سے فوجوں کا انخلاء بھی ضروری ہے: اوباما

شہاب احمد صدیقی23 مارچ 2009

امریکی صدر اوباما، افغانستان کے بارے ميں ایک نئی حکمت عملی بنانا چاہتے ہيں۔ اس ميں وہ امريکی فوج کی واپسی کو بھی شامل کرنا چاہتے ہيں۔ وہ يہ پہلے ہی کہہ چکے ہيں کہ فی الوقت امريکہ افغانستان ميں جنگ نہيں جیت سکتا۔

https://p.dw.com/p/HIA0
اوباما انتظامیہ افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے نئی پالیسی مرتب کرنے میں مصروف ہےتصویر: AP / DW-Fotomontage

امريکی صدراوباما نے CBS ٹیلی ویژن کو دئے گئے ايک انٹرويو ميں کہا ہے کہ افغانستان کے بارے ميں امريکہ کی نئی جامع حکمت عملی ميں افغانستان سے امريکی فوج کے انخلاء اورپاکستان کے ساتھ سفارتی کوششوں کوبھی شامل ہونا چاہئے۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ صرف فوجی قوت کے ذريعے افغانستان کی جنگ کوختم کرنا ممکن نہيں ہے۔ امريکی صدراس سے پہلے بھی کہہ چکے ہيں کہ امريکہ فی الوقت وہاں جنگ جيت نہيں سکتا ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ مستقبل ميں افغانستان کی اقتصادی ترقی پرزيادہ توجہ دی جانا چاہئے۔

اوباما، اپريل کے شروع ميں اشٹراسبرگ ميں نيٹو کی سربراہی کانفرنس ميں اتحادی ملکوں کے ساتھ جو صلاح مشورے کريں گے، ان ميں افغانستان کی جنگ مرکزی موضوع ہوگی۔

امريکہ افغانستان ميں اپنی فوج ميں سترہ ہزار کا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت وہاں اس کے فوجيوں کی تعداد اڑتيس ہزارہے۔

ہنگری کے بائيں بازو کے لبرل اخبارنيپسا بادساگ نے لکھا ہے کہ امريکيوں کو فی الحال صرف اپنی ملازمتوں، پينشن، اوربچت کی فکرہے اوروہ اوباما سے جلد کاميابيوں کی توقع رکھتے ہيں۔ CIA، پاکستان افغان سرحدی علاقے کواسلامی شدت پسندوں کا ايک اہم ترين گڑھ سمجھتی ہے۔ اگرخدانخواستہ گيارہ ستمبر جيسا واقعہ دوبارہ پيش آتا ہے، تو پھردوبارہ يہ ظاہر ہو گا کہ امريکيوں کے لئے ان کی پينشن اورمنافع بونڈزسب سے زيادہ اہم نہيں ہيں۔

امريکی صدراوباما نے يہ بھی کہا ہے کہ ان کے دوماہ کی صدارتی مدت ميں افغانستان ميں مزيد فوجی بھيجنے کا فيصلہ مشکل ترين فيصلہ تھا جو انہوں نے اس علاقے کی فوجی صورت حال کا جائزہ مکمل کرنے سے پہلے کيا تھا۔

ادھر پاکستان کے قبائلی علاقے وزيرستان ميں شدت پسند مستقل طورسے قبائليوں کواغواء اورقتل کررہے ہيں۔ جن پروہ پاکستانی حکومت يا امريکی فوج کے ساتھ ساز باز کا الزام لگاتے ہيں۔

بھارت کے وزير داخلہ چدم برم نے کہا ہے کہ پاکستان ايک ناکام رياست ميں تبديل ہورہا ہے اور طالبان کی سرگرميوں ميں اضافے سے بھارت ميں بھی بنياد پسندوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔

ترکی کے وزير دفاع وجدی گيونيول نے کہا ہے کہ ترکی افغانستان ميں اپنے آٹھ سو فوجيوں ميں اضافے پر تيار ہے ليکن انہيں جنگ زدہ علاقوں ميں تعينات نہيں کيا جائے گا۔ اس بارے ميں، دوہفتے بعد امريکی صدر کے دورے ميں غور کيا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ميں ترکی کے لئے بڑے اچھے جذبات پائے جاتے ہيں اور ترکی، افغانستان کے بارے ميں صدر اوباما کی نئی پاليسی ميں اہم کردارادا کرسکتا ہے اورامريکہ اورايسے افغان گروپوں کے درميان ثالثی کرا سکتا ہے جو براہ راست امريکہ سے بات چيت نہيں کرنا چاہتے۔

جرمن فضائيہ کے مطابق وہ اگلے دنوں کے اندر چھ ٹورناڈوجيٹ افغانستان کے حوالے کرے گی۔ سال ميں تين سے چار مرتبہ ہونے والے اس تبادلے ميں، استعمل شدہ ٹورناڈوجيٹ جرمنی واپس لائے جاتے ہيں۔