1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: داعش کے پاس اتنا پیسہ آ کہاں سے رہا ہے؟

امجد علی11 جولائی 2016

افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کے زیرِ انتظام علاقہ سُکڑتا جا رہا ہے لیکن یہ دہشت گرد ملیشیا ملک میں موجود بدستور ہے۔ پتہ چلا ہے کہ افغانستان میں داعش کے لیے نئےجنگجو پاکستان سے بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JN82
Afghanistan Kämpfe zwischen IS und afghanischen Truppen Nangarhar
افغان فورسز ننگر ہار صوبے میں اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر گولے برسا رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں داعش کے خلاف برسرِپیکار ایک افغان جنرل محمد وزیری نے یہ عجیب چیز دیکھی کہ داعش کے جنگجو افغان فورسز کے خلاف حملوں کے دوران ہتھیار نہیں لُوٹتے تھے، جس کا جنرل وزیری کے خیال میں واضح مطلب یہ ہے کہ ان عسکریت پسندوں کو پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے: ’’اُن کے پاس پیسہ بہت ہے۔ آخر کون اُنہیں یہ سارا پیسہ دے رہا ہے؟ اُنہیں مالی وسائل کون دے رہا ہے؟ مَیں نہیں جانتا۔‘‘

جنرل وزیری رواں سال اس ملیشیا کے خلاف حاصل کردہ کامیابیوں کا زیادہ فخریہ طور پر ذکر نہیں کرتے، جس کی تین بڑی وجوہات میں سے ایک اس ملیشیا کو ملنے والے بھاری مالی وسائل ہیں، دوسری اس گروپ کے جنگجوؤں کی جانب سے مسلسل جاری حملے ہیں اور تیسری ان عسکریت پسندوں کا بڑی آسانی کے ساتھ پاک افغان سرحد کو عبور کر کے اِدھر اُدھر آنا جانا ہے۔

داعش کے خلاف زیادہ تر کامیابیاں بھی اس گروپ کے خلاف امریکی فضائی حملوں کا نتیجہ تھیں۔ صدر باراک اوباما نے اس سال جنوری سے افغانستان میں داعش کی شاخ ’اسلامک اسٹیٹ، خراسان صوبہ‘ پر حملوں کی اجازت دے دی تھی۔

افعانستان میں امریکی اور نیٹو کمانڈر جنرل جان نکلسن کے مطابق ان فضائی حملوں کے باعث افغانستان میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقے کافی سُکڑ گئے ہیں اور جہاں گزشتہ سال اس گروپ کو ننگرہار صوبے میں نو اضلاع پر کنٹرول حاصل تھا، وہاں اب محض دو یا تین اضلاع اس کے کنٹرول میں ہیں۔ جنرل نکلسن نے محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا، ’’کیا یہ گروپ اُتنا ہی بڑا ہے، جتنا کبھی تھا؟ نہیں۔ کیا ہم اس کے سُکڑ جانے پر مطمئن ہیں؟ ہاں، بالکل۔ لیکن ہمیں دباؤ برقرار رکھنا ہو گا۔‘‘

اس جائزے کے مطابق افغانستان میں داعش ہرگز اُتنی طاقتور نہیں ہے، جتنی کہ یہ عراق اور شام میں ہے۔ افغانستان میں یہ ملیشیا زیادہ تر طالبان اور دیگر باغی گروپوں کے ہی غیر مطمئن جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔

Kot Nengarhar Afghanistan Menschen fliehen vor dem IS
ننگر ہار صوبے میں بسنے والے افغان شہری داعش کے جنگجوؤں سے اپنی جان بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیںتصویر: DW/O.Deedar

وزیری اور نکلسن دونوں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ اس گروپ کی موجودگی سے بھی خبردار کیا۔ وزیری کے مطابق اس گروپ کے تربیتی مراکز اور اسلحے کے ڈپو سرحدی علاقے میں موجود ہیں اور اس کے جنگجوؤں کی تعداد اندازاً دو ہزار ہے۔

نکلسن کے مطابق پاکستانی فوج کو بھی اس بات پر تشویش ہے کہ افغانستان کا داعش گروپ پاکستان میں اپنے لیے نئے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے کوشاں ہے: ’’پاکستانی سرزمین پر پاکستان کے خلاف برسرِپیکار طالبان میں سے کئی ایک اب افغانستان میں آ کر داعش میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید