1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، خواتین کے نام اُن کی قبر کے کتبوں پر بھی نہیں

صائمہ حیدر
28 جولائی 2017

افغانستان کے پدرانہ معاشرے میں ایک خاتون کا نام کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اُسے  اُس کے نام سے کبھی پکارا جاتا ہے۔ حتیٰ کے اُس کی قبر کے کتبے پر بھی اُسے اسکے باپ، شوہر یا بیٹے کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2hJvf
Afghanistan - Häuslicher Missbrauch - Scheidung
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

افغانستان کے قبرستانوں میں جب آپ کسی خاتون کی قبر دیکھیں تو کتبے پر آپ کو مرحومہ کا اپنا نام نہیں بلکہ کچھ ایسا لکھا ہوا ملے گا، فلاں شخص کی ماں، بیٹی یا بیوی۔

قدامت پرست مسلم معاشروں میں خاندان کی عورتوں کو اُن کے نام سے بلانا نہ صرف نا مناسب بلکہ کسی حد تک عزت اور غیرت کا مسئلہ بھی سمجھا جاتا ہے۔

 بچوں کی پیدائش کے سرٹیفیکیٹ پر والدہ کے نام کا نام ونشان تک نظر نہیں آتا۔ شادی کے دعوت نامے پر بھی دلہن کا نام نہیں لکھا جاتا البتہ دلہن کے والد اور ہونے والے شوہر کا نام ضرور ہوتا ہے۔

لیکن اب سوشل میڈیا پر خواتین کی قیادت میں ایک مہم شروع کی جا رہی ہے جو اس پرانی افغان روایت کو چیلنج کرے گی۔ ہیش ٹیگ ’ویئر اِز مائی نیم‘ کے تحت عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ نے ٹویٹر پر اس مہم کا آغاز اس لیے کیا ہے تاکہ نہ صرف افغان معاشرے میں خواتین کا نام لینے پر پابندی کی روایت کو توڑا جا سکے بلکہ سرکاری دستاویزات پر بھی خواتین کے نام کے اندراج کی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔

اس مہم کی ایک سرگرم خاتون ایکٹیوسٹ رکن بہار سہیلی نے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ہمارے معاشرے میں عورتوں سے نا انصافی معمول کی بات ہے۔ تقریباﹰ ہر چیز ہی خواتین کے لیے ممنوع ہے۔‘‘ اس مہم کے ذریعے ہم بہت سی چیزیں تبدیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے نوجوان افراد کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔‘‘

کابل میں ہائی کورٹ کے ترجمان عبداللہ اتاہی کے مطابق افغان قانون میں ماں کا نام بچے کی پیدائش کے سرٹیفیکیٹ پر درج نہیں ہو سکتا۔ اتاہی نے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ افغان معاشرہ تبدیل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ خواتین کے نام حذف کرنے کی روایت کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ افغان قدامت پسند سماج سے ہے۔

 یہ افغان معاشرے میں خواتین کے دوسرے درجے کی حیثیت کی ایک علامت ہے جہاں اُس کی تعلیم سے لے کر شادی تک کے فیصلے مردوں‌ کے ہاتھوں میں ہیں۔ تاہم وکیل اور خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن شاہ گل رضائی کا کہنا ہے کہ افغان معاشرے میں عورتوں کو اُن کے جائز حقوق کی جنگ جاری رہے گی۔