1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: امن کی بجھتی امیدیں، امریکا اور پاکستان کی نئی کوششیں

افسر اعوان10 دسمبر 2014

افغانستان میں کچھ عرصے کے دوران طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں اور سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے امریکی انتظامیہ میں ایک بار پھر اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا راستہ روکے۔

https://p.dw.com/p/1E1z1
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان کی طرف سے کیا گیا یہ وعدہ مستقبل قریب میں پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ شدت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لے آئے گا۔ عالمی مبصرین کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم طالبان اور القاعدہ کو شکست دینے کے لیے افغانستان، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر اس موقع پر جب افغانستان میں تعینات غیر ملکی فوجی رواں ماہ کے آخر تک اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں گے۔

روئٹرز کے مطابق ابھی تک یہ تینوں ممالک ایک دوسرے کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہیں تاہم گزشتہ ہفتے کے دوران ان ممالک کے درمیان تعاون امید کی ایک کرن ثابت ہوا ہے۔

امریکی فورسز کی طرف سے افغانستان میں گ‍زشتہ برس گرفتار کیے گئے پاکستانی طالبان کے ایک سابق کمانڈر کو پاکستان کو لوٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان میں القاعدہ کے دو رہنماؤں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔

اشرف غنی اور نواز شریف نے لندن میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کے دوران گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی ہیں
اشرف غنی اور نواز شریف نے لندن میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کے دوران گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی ہیںتصویر: AFP/Getty Images/F. Naeem

دوسری طرف پاکستانی طالبان نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے افغانستان میں موجود ان کے ٹھکانوں کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنانے کے عمل میں تیزی آ گئی ہے۔ اس سے پاکستان میں طالبان کے حملوں کا راستہ رُکا ہے۔

افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ شدت پسندوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان الحاق تو ہے مگر دونوں علیحدہ علیحدہ تنظیمیں ہیں اور اپنے اپنے ملک میں موجود حکومتوں کو ختم کر کے اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ماہ امریکا کا دورہ کیا۔ روئٹرز نے اس دوران ہونے والی بات چیت سے آگاہی رکھنے والے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان نے پیشکش کی ہے کہ اگر امریکا پاکستانی طالبان کو شکست دینے میں مدد کرتا ہے تو وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں گے۔ اس اہلکار کے مطابق اس وقت امریکا پاکستان کے اس وعدے پر عمل کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی کانگریس رواں ہفتے پاکستان کو 2015ء میں ایک بلین ڈالرز کی فوجی امداد دیے جانے کے معاملے پر ووٹ ڈالنے والی ہے۔ تاہم اس میں 300 ملین ڈالرز اس بات کے شواہد فراہم کرنے کے بعد دیے جائیں گے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ حقانی گروپ افغانستان میں حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں تاہم رواں برس ستمبر میں نئے افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کا دعویٰ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کے دوران گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے نائب خصوصی نمائندے جوناتھن کارپینٹر کے مطابق، ’’افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈائیلاگ کا دوبارہ آغاز شاید سب سے زیادہ اہم علاقائی پیشرفت ہے۔‘‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور مذاکرات کی بحالی اور امریکا کی طرف سے پاکستانی طالبان کے خلاف افغانستان میں جاری کارروائی کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ یہ تینوں ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے زیادہ بھرپور اور مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔