1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: امریکی افواج کی پس پردہ سرگرمیاں

امتیاز احمد18 اگست 2015

امریکی فورسز اور افغان فوجیوں کی مابین اعتماد کی اس قدر کمی ہے کہ امریکی فوجی کسی بھی مسلح افغان فوجی پر اعتبار نہیں کرتے۔ لیکن امریکی کیسے پس پردہ رہتے ہوئے افغان فوجیوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں؟

https://p.dw.com/p/1GH8i
Kuba US-Gefängnis Guantanamo Camp X-Ray
تصویر: Getty Images/J. Raedle

شورش زدہ مشرقی افغانستان میں قائم امریکی بیس کے واچ ٹاور میں موجود فوجی مشیر جوش وِٹن اپنے افغان ساتھیوں کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے سے تو گریزاں ہیں لیکن ان کا یہ ضرور کہنا تھا، ’’ ان کو یہاں ہمارے پاس آنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ آتے ہی ہمارا سامان خراب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

امریکا کی ’فارورڈ آپریٹنگ بیس کونیلی‘ میں خوش آمدید، یہاں پر امریکی فوجی افغان فوج کی 201 کور کو تربیت اور حکمت عملی پر مبنی مشورے فراہم کرتے ہیں۔ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے سات ماہ بعد امریکی فوجی شک اور حیرانی کے ساتھ افغان فورسز کو طالبان کے خلاف مدد فراہم کر رہے ہیں۔ امریکی فوجی کی یہ عارضی چھاؤنی صوبہ ننگر ہار میں افغان بیس کے مضافات میں قائم ہے۔ امریکی فورسز یہاں پر’’آپریشن آئرن ٹرائی اینگل‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن میدان میں لڑنے والے افغان فوجیوں کو اس بیس کے قریب بھی آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس امریکی بیس کے دروازے پر خونخوار حفاظتی کتوں کی قطار کھڑی ہے جبکہ دروازے پر مشین گنیں نصب ہیں۔ افغان فوجیوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔

جوش وِٹن کے مطابق یہ حفاظتی اقدامات افغان فوجیوں کی طرف سے امریکی فوجیوں پر پے در پے ہونے والے ’’اندرونی حملوں‘‘ کی وجہ سے کیے گئے ہیں۔ ایک سال قبل امریکی جنرل ہیرلڈ گرین اسی طرح کے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ یہاں پر امریکی فوجی مشیر دن میں دو مرتبہ افغان فوجیوں والی سائیڈ پر جاتے ہیں لیکن یہ ہر طرح کے اسلحے سے لیس اور مسلح ہوتے ہیں تاکہ افغان فوجیوں کے کسی بھی ممکنہ حملے سے بچا جا سکے۔ افغان فوجی پاکستان سرحد کے قریب واقع تین اضلاع کو طالبان سے ’صاف‘ کرنے کا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

’آپریشن آئرن ٹرائی اینگل‘ میں دو ہزار افغان فوجی، پولیس اہلکار اور خفیہ ایجنٹ حصہ لے رہے ہیں۔ دسمبر کے بعد سے تیرہ ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں لیکن ان کا کردار ’صرف افغان فوجیوں کی ٹریننگ‘ تک محدود ہے۔

اس بیس میں امریکی سربراہ مشیر میجر ایڈورڈ بینکسٹن کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ ہم زیادہ تر صرف اپنی رائے دیتے ہیں۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ یا پھر اپنے طریقے سے لڑتے ہیں، ہمارا کام انہیں بس مشورے دینا ہے۔‘‘

بینکسٹن کے برعکس امریکی خاتون لیفٹیننٹ ایلن گروز کی افغان فوجیوں کو فراہم کی جانے والی ٹریننگ کے بارے میں رائے مثبت تھی۔ ان کا اس آپریشن میں فضائی مدد فراہم کرنے والے یونٹ کے سربراہ افغان میجر رسول کے بارے میں کہنا تھا کہ زمینی اور فضائی افواج کے درمیان رابطوں کا سلسلہ مثبت ہے، کسی بھی زمینی کارروائی سے پہلے مشورہ مانگا جاتا ہے کہ پہلے فضائی بمباری کی جائے یا کچھ اور۔ کسی بھی فیصلے کے بعد ہی فوجیوں کو آگے جانے کا کہا جاتا ہے۔‘‘

دوسری جانب میجر رسول کا شکوہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسّی کی دہائی میں ان کے پاس جدید ہتھیار تھے لیکن اب طالبان سے لڑنے کے لیے ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں ہے۔

ایک افغان آفیسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ افغان فوجی اپنے اسلحے کی حفاظت ہی نہیں کرتے اور نہ ہی مناسب طریقے سے اس کی صفائی کرتے ہیں جبکہ یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ سکتا ہے یا پھر اسے بیچا بھی جا سکتا ہے۔

تمام تر امریکی مشاورت کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ افغان فوجیوں کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ رواں برس جنوری سے جولائی تک چار ہزار تین سو سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد تقریباﹰ تین ہزار تین سو تھی۔

کرنل جیبی ووِل کا کہنا تھا کہ افغان فوجیوں نے آرٹلری، ایوی ایشن اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں بہت سے سبق سیکھے ہیں لیکن اصل اور پائیدار کامیابی صرف اسی وقت ملے گی، جب سیاسی سطح پر مقامی رہائشیوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں گی۔