افغانستان : امدادی کارکنوں کی منتقلی کا فیصلہ
5 نومبر 2009کارکنوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی وجہ افغانستان میں سلامتی کی ابتر صورتحال بتائی گئی ہے۔ اُدھر آسٹریلیا نے یہ امریکی درخواست رد کر دی ہے کہ اُسے اپنے مزید فوجی دستے افغانستان بھیجنا چاہیئں۔
اقوام متحدہ نے افغانستان میں فرائض انجام دینے والے اپنے ایک ہزار تین سو غیر ملکی کارکنوں میں سے چھ سو کو وہاں سے واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کابل میں اٹھائیس اکتوبر کے اُس حملے کے رد عمل میں کیا گیا ہے، جس میں عالمی ادارے کے چھ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
عالمی ادارے کے سینکڑوں کارکنوں کی افغانستان سے واپسی کا اعلان جمعرات کو کابل میں اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کائی آئیڈے نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا:"ہم کسی انخلاء یا واپسی کی بات نہیں کر رہے۔ ہم صرف وہی اقدامات کر رہے ہیں، جن پر ہم گزشتہ ہفتہ کے المناک واقعے کے بعد مجبور ہو گئے ہیں۔"
کائی آئیڈے کے بقول افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کافی بہتر بنانے کے لئے اضافی انتظامات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے، اور جیسے ہی یہ بہتری ممکن ہوئی، یہ کارکن دوبارہ افغانستان آ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی مدد کا کام مسلسل جاری رہے گا۔
افغانستان میں تعینات اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی کُل تعداد ساڑے پانچ ہزار ہے جن میں سے ایک ہزار کے قریب غیرملکی ہیں۔
افغانستان میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری کے لئے کچھ عرصہ پہلے امریکہ نے آسٹریلیا سے یہ درخواست کی تھی کہ آسٹریلیا اپنے مزید فوجی دستے افغانستان بھیجے۔ اس بارے میں آج کینبرا حکومت نے جواب یہ دیا کہ آسٹریلیا اپنے مزید کوئی فوجی دستے افغانستان نہیں بھیجے گا۔ اس وقت آسٹریلیا کے پندرہ سو سے زائد فوجی افغانستان میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے چارسو پچاس فوجی اسی سال اپریل کے آخر میں وہاں بھیجے گئے تھے۔ آج ہی آسٹریلوی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کی جنگ اُس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک کہ افغان عوام کے دل نہ جیتے جائیں۔
افغانستان میں حامد کرزئی کے دوبارہ انتخاب کے بعد سےاب تک ان کی حکومت پرکڑی تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے فرانسیسی وزیر خارجہ بَیرنارڈ کُشنَیر نے آج اپنے ایک اخباری انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ صدر حامد کرزئی بدعنوان ہیں۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کے بقول صدر کرزئی کے بدعنوان ہونے کے باوجود مغربی دنیا مجبور ہے کہ اُن کی حمائت کرتی رہے، اور اُن کی حکومت کے جائز ہونے کو تسلیم کروائے۔ اس لئے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں صدر کرزئی کی حمایت بھی لازمی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک