1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان آئی ایس عسکریت پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے

کشور مصطفیٰ11 فروری 2015

سی آئی اے کے ایک سابق آفیسر نے کہا ہے کۃ افغانستان مستقبل میں اسلامک اسٹیٹ کے اُن جہادیوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے جو اس وقت عراق اور شام میں جنگ بپا کیے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EZUO
Symbolbild - CIA
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی خفیہ ایجنسی نے انتباہ کیا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد جب مغربی دنیا کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہو جائے گی تو یہ ملک ایک بار پھر اسلامی انتہا پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے۔

سینٹرل اینٹیلیجنس ایجنسی کے اسلام آباد میں قائم اسٹیشن کے سابق سربراہ اور ایک نئی کتاب کے مصنف رابرٹ گرینیئر نے منگل کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان مستقبل میں اسلامک اسٹیٹ کے اُن جہادیوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے جو اس وقت عراق اور شام میں جنگ بپا کیے ہوئے ہیں۔

اپنی سرزگشت " 88 Days to Kandahar" میں رابرٹ گرینیئر نے 11 ستمبر 2001 ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی قیادت میں بین الاقوامی فوج کی مدد کے دوران اپنے کرب ناک تجربات کو قلم بند کیا ہے۔ واشنگٹن میں قائم ’ نیو امریکا تھنک ٹینک‘ کی طرف سے منعقد کیے جانے والے ایک ایونٹ پر رابرٹ گرینیئر کا کہنا تھا،" میں یہ کہوں گا کہ مستقبل میں افغانستان میں پائے جانے والے خطرات میں سب سے بڑا خطرہ اس ملک کے محفوظ ٹھکانے ہوں گے اور یہ خطرہ نائن الیون سے پہلے پائے جانے والے خطرات سے کہیں زیادہ ہو گا"۔

Gesucht: Mullah Mohammed Omar
طالبان کمانڈر مُلا عمرتصویر: AP

رابرٹ گرینیئر کا کہنا ہے کہ اگر افغان طالبان سے اُن کے پاکستانی اتحادیوں یعنی پاکستانی طالبان یا دیگر طالبان انتہا پسندوں جیسے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے محفوظ ٹھکانے کی درخواست کی تو افغان طالبان اس درخواست کو مسترد نہیں کر سکیں گے۔ " پاکستان کے اندر ایسے طالبان گروپ موجود ہیں جو اسلام آباد حکومت پر کسی بھی وقت حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کہیں اور نہیں جائیں گے۔ یہ پاکستان ہی میں موجود رہیں گے" ۔

رابرٹ گرینیئر کا کہنا ہے کہ طالبان کے نظریات بالکل واضح ہیں۔ اُن کے فیصلے سیاہ و سفید کے فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں۔ اُن کی سرگرمیوں کا دار ومدار ایک سوال کے جواب پر ہوگا۔ وہ یہ کہ" کیا یہ اسلامی احکامات کے مطابق ہے یا نہیں؟ "

رابرٹ گرینیئر کا مزید کہنا ہے کہ یہ طالبان کبھی بھی سرحد پار اپنے ہم خیال اور اپنے تصورات کی حمایت کرنے والوں کی طرف پیٹ نہیں پھیریں گے۔ وہ کہتے ہیں، " میں سمجھتا ہوں کہ اگر عالمی دہشت گردوں کا ستارہ کبھی گردش میں آیا، جو کہ میرے خیال سے مستقبل میں ضرور ہوگا اور وہ خاطر خواہ تعداد میں اس خطے کی طرف ایک بار پھر لوٹے تو بھی یہ طالبان عناصر کبھی بھی ان کی طرف سرد مہری اختیار نہیں کریں گے" ۔

Islamischer Staat Fahne
اسلامک اسٹیٹ کے عراق میں سرگرم جنگجوؤں کے حامیتصویر: picture alliance / AP Photo

رابرٹ گرینیئر کی سوانح " 88 Days to Kandahar" میں انہوں نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ کیسے 2001 ء میں امریکی طیاروں نے کس طرح طالبان لیڈر ملا عمر کو باہر نکالنے کا موقع محض 30 منٹ سے کھو دیا تھا اور یہ کہ ایک امریکی بمباری کے واقعے میں کس طرح حامد کرزئی بال بال بچے تھے تاہم حامد کرزئی امریکی بمباری کا نشانہ نہیں تھے بلکہ نادانستگی میں یہ کارروائی کی گئی تھی۔

گرینیئر نے اپنی سرگزشت میں اُس واقعے کو بھی بیان کیا ہے جس میں نائن الیون کے کچھ روز بعد طالبان کے نمبر دو کمانڈر کے ساتھ مذاکرات کی آخری کوشش کی گئی تھی جس میں گرینیئر نے خود پاکستان میں اس ملاقات میں اسے ملا عمر سے علیحدگی اختیار کرنے اور بغاوت پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

سابقہ سی آئی اے آفیسر گرینیئر کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں ہمیشہ سے شبہ تھا کیونکہ طالبان باغیوں کو اب بھی یقین ہے کہ وہ کابل حکومت کا تختہ اُلٹ سکتے ہیں اور اقتدار پر قا بض ہو سکتے ہیں تاہم گرینیئر طالبان گروپ کو سیاسی حکمرانی کے قابل نہیں سمجھتے اور ان کے خیال میں طالبان پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔