1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان پناہ گزین: وطن واپسی ایک مشکل فیصلہ

28 جون 2013

افغانستان میں امن وامان کی خراب صورت حال، زندگی کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور روزگار کے کم مواقع کی وجہ سے پاکستان میں قریب تین دہائیوں سے آباد افغان پناہ گزینوں کے لیے اپنے وطن واپسی ایک مشکل فیصلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/18yCP
تصویر: AP

پاکستان میں آباد بہت سے افغان پناہ گزینوں کی ایک سی کہانی ہے۔ شکور افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں پیدا ہوا، سن 1979 میں روسی جارحیت کے بعد جب افغانستان میں جنگ کے باعث انارکی پھیل گئی تو اسے ملک چھوڑ کر سرحد پار پاکستان میں آ کر آباد ہونا پڑا۔ وہ پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مکین ہوا۔ اسے افغانستان کے بارے میں بس اتنا ہی یاد ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے وہ پشاور میں ایک سادہ سی زندگی گزار رہا ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے میں اس کی سبزی کی دکان ہے۔

پاکستان کی حکومت نے وہاں موجود افغان مہاجرین کو 30 جون تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اسلام آباد حکومت اس اعلان پر اگر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کرتی تو اس کی زندگی تلپٹ ہو سکتی ہے۔ اس اعلان پر عملدارآمد کی صورت میں 1.6 ملین افغان مہاجرین کو پاکستان سے رخصت ہونا پڑے گا۔

گذشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومت ہر بار اپنی دی گئی اس حتمی تاریخ میں توسیع کر دیتی ہے اور وہاں موجود غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو نئی مہلت مل جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 1.6 ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جبکہ وہاں ایک بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ مہاجرین بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں اب مقامی آبادی کی جانب سے اس حوالے سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ پہلے سے موجود کم وسائل کو مہاجرین کے ساتھ بانٹ بانٹ کر تنگ آ چکے ہیں۔ یہ دباؤ شاید ان پناہ گزینوں کی واپسی کا باعث بن جائے۔

Afghanistan Flüchtlinge Flüchtlingslager
پاکستان نے افغان مہاجرین کو 30 جون تک ملک چھوڑنے کے لیے کہہ رکھا ہےتصویر: AP

شکور اور اس جیسے کئی اور لوگوں کے لیے افغانستان واپسی کوئی آسان فیصلہ نہیں ہو گی۔ اس نے پشاور میں اپنی دکان سے گھر اور گھر سے دکان تک کچھ دیکھا ہی نہیں، وہ آج کل بہت زیادہ پریشان ہے۔ خبررساں ادارے آئی پی ایس کو اس نے بتایا، ’’میرے تین بچے ہیں جو مقامی سکول میں زیر تعلیم ہیں، وطن واپسی کا مطلب ہے کہ میں انہیں تعلیم سے محروم کر دوں‘‘۔

اسے اس بات پر بھی پریشانی ہے کہ افغانستان میں اسے بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہوں گی۔ اس کی پریشانی یہ سوچ کر اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اس کے روزگار کا کیا بنے گا۔ افغانستان میں تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ یہ سب خیالات واپسی کے خیال کو ایک بھیانک خواب بنا دیتے ہیں۔

پاکستانی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر خبر رساں ادارے آئی پی ایس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام کو بھی افغان پناہ گزینوں کے مسائل کا ادراک ہے اور یہ ممکن ہے کہ نو منتخب جمہوری حکومت افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی تاریخ میں مزید توسیع کر دے۔

zb/aa(IPS)