1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجر پاکستانی حکام کی بدسلوکی رپورٹ کریں، اقوام متحدہ

مقبول ملک
25 جنوری 2017

اقوام متحدہ نے پاکستان میں مقیم قریب 1.3 ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کی طرف سے بدسلوکی اور اپنے خلاف زیادتیاں رپورٹ کریں۔ اس مقصد کے تحت ایک باقاعدہ پروگرام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WO4s
Peschawar Pakistan Demonstration von Flüchtlingen aus Afghanistan
افغان مہاجرین کا پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے خلاف مظاہرہ، فائل فوٹوتصویر: DW/F. Khan

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ پچیس جنوری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے مختلف ذیلی اداروں نے افغان مہاجرین پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کے اہلکاورں کی ان مبینہ زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کریں، جن کا مقصد ہمسایہ ملک افغانستان سے آنے والے ان تارکین وطن کو واپس اپنے ملک جانے پر مجبور کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف (UNICEF) اور عالمی ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے اہلکاروں نے بدھ کے روز کہا کہ اس سلسلے میں شروع کیے گئے ایک پروگرام کے تحت یونیسیف کی طرف سے سوشل مانیٹرنگ کے لیے استعمال ہونے والی ’’یو رپورٹ پاک آواز‘‘ کو بروئے کار لایا جائے گا۔

اس کے لیے پاکستان میں افغان مہاجرین کی نوجوان نسل کو خاص طور پر دعوت دی گئی ہے کہ وہ ملکی سکیورٹی اہلکاروں کی اپنے ساتھ مبینہ بدسلوکی اور زیادتیوں کی رپورٹیں اسی ذریعے سے درج کرائیں۔

یونیسیف کے مطابق اس طرح افغان مہاجرین اقوام متحدہ کے اداروں کو ٹوئٹر، فیس بک یا پھر کسی موبائل فون سے بھیجے گئے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھی اپنی شکایات سے آگاہ کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ یہی سوشل مانیٹرنگ پروگرام  ان مہاجرین اور ان کی نوجوان نسل کو اپنے مسائل سے متعلق بہتر ابلاغ کا موقع بھی فراہم کرے گا۔

Afghanische Flüchtlinge in Pakistan
’پاک آواز‘ کے ذریعے پاکستان میں افغان مہاجرین مقامی سکیورٹی حکام کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف اپنی شکایات درج کرا سکیں گےتصویر: DW/F. Khan

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکام قریب 1.3 ملین افغان مہاجرین کو مبینہ طور پر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد واپس اپنے جنگ زدہ وطن لوٹ جائیں، حالانکہ ملکی حکومت نے قانوناﹰ ان مہاجرین کو رواں سال کے آخر تک پاکستان میں قیام کی اجازت دے رکھی ہے۔

نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے مختلف ہیومن رائٹس تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی پولیس افغان مہاجرین کے گھروں پر اچانک چھاپوں کا سلسلہ تیز کر چکی ہے۔ ان مہاجرین کو باقاعدہ کوئی الزامات عائد کیے بغیر لمبے عرصے کے لیے جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور ان کے آجرین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ان مہاجرین کو اپنے ہاں کوئی کام کاج نہ کرنے دیں۔

پاکستانی سکیورٹی اداروں نے مہاجرین کے خلاف ان کارروائیوں کا آغاز 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر کیے جانے والے اس خونریز دہشت گردانہ حملے کے بعد کیا تھا، جس میں قریب 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں بہت بڑی اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید