1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کا حملہ: بیسیوں فوجیوں کی تدفین، دو جنرل برطرف

مقبول ملک
23 اپریل 2017

شمالی افغانستان میں طالبان کے خونریز حملے میں مارے جانے والے سو سے زائد فوجیوں کی تدفین کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ آج اتوار تئیس اپریل کو پورے ملک میں یوم سوگ منایا جا رہا ہے جبکہ دو فوجی جنرل برطرف بھی کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bkzp
Afghanistan Angriff der Taliban auf eine Militärbasis in Masar-i-Scharif
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan

افغانستان کے شمال میں مزار شریف سے اتوار تئیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں نے جمعہ اکیس اپریل کو ملکی فوج کے ایک اڈے پر ایک بڑے حملے میں جن 100 سے زائد افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا، ان کی اصل تعداد کے بارے میں حکام کے بیانات ابھی تک متضاد نوعیت کے ہیں۔

کابل میں ملکی وزارت دفاع کے مطابق اس حملے میں، جو شمالی افغان صوبے بلخ میں فوجی یونیفارم میں ملبوس 10 طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے کیا گیا تھا، کم از کم بھی 100 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ دوسری طرف بلخ میں صوبائی حکام ان فوجی ہلاکتوں کی تعداد کم از کم بھی 130 بتا رہے ہیں جبکہ ملکی فوج کے زخمی ہونے والے اہلکاروں کی تعداد بھی قریب 60 بنتی ہے۔

طالبان حملے میں 140 افغان فوجی ہلاک، میرکل کا غنی اظہار افسوس

سب سے بڑے بم حملے کے بعد قومی سلامتی کے امریکی مشیر کابل میں

افغان طالبان کی پاکستان آمد، داعش کے خلاف حکمت عملی؟

اس حملے کے بعد کابل حکومت نے آج اتوار کے روز پورے ملک میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھا اور آج ہی ان ہلاک ہونے والے فوجیوں میں سے بیسیوں کو ان کے اہل خانہ نے دفنا بھی دیا۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں ان فوجیوں کی تدفین کے وقت ان کے لواحقین نے ملک میں سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے میں حکومتی ناکامی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر ملکی فوج کے سربراہ اور متعلقہ ملکی وزیر عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو انہیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ جمعے کے روز کیا جانے والا یہ حملہ طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے ملکی فوج کے کسی بھی اڈے پر آج تک کیا جانے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا اور ہلاک شدگان کے لواحقین یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ اگر اقتدار سے نکالنے کے جانے کے 15 برس بعد بھی طالبان شدت پسند اپنی عسکری طاقت میں مسلسل مضبوط ہوتے جا رہے ہیں تو حکومت کو اس بارے میں اپنی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنا چاہییں۔

Afghanistan Taliban-Angriff auf Militärlager in Mazar-i-Sharif
اس حملے کے بعد کابل حکومت نے آج اتوار کے روز پورے ملک میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan

کابل سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے مختلف شہروں میں آج منائے جانے والے یوم سوگ کی وجہ سے قومی پرچم سرنگوں رہا اور کئی شہروں میں بلخ میں مارے گئے فوجیوں کی غائبانہ نماز جنارہ بھی ادا کی گئی۔

اس حملے کے بارے میں یہ بات بھی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کہ اس حملے کے لیے فوجی یونیفارم پہنے ہوئے اور فوجی ٹرکوں پر سوار طالبان کے 10 حملہ آوروں نے اپنے پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے حملے کے دوران افغان فوجیوں کی اکثریت کو اس وقت نشانہ بنایاجب وہ یا تو اس ملٹری بیس کے ڈائننگ ہال میں کھانا کھا رہے تھے یا پھر وہاں ایک مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔

اسی دوران افغان فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر ان فوجی دستوں پر انہی کی صفوں کے اندر سے کیا جانے والا ایک حملہ تھا اور حملہ آور ایسے ’نوجوان ریکروٹ تھے، جو وہاں تربیت کے لیے آئے تھے‘۔

دیگر رپورٹوں کے مطابق اسی بہت ہلاکت خیز حملے کے سلسلے میں افغان فوج کے کم از کم 12 افسروں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے الزام میں ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ فوجی ملازمت سے برطرف کیے گئے ان درجن بھر فوجی افسروں میں کم از کم دو جنرل بھی شامل ہیں۔