1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کے چھوٹے بھائی احمد ولی کرزئی کا قتل

12 جولائی 2011

افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی کو، جو ملک کی طاقتور ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے، شدید بحرانی حالات سے دوچار جنوبی صوبے قندھار میں آج منگل کو قتل کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/11tRC
افغان صدر کے چھوٹے بھائی احمد ولی کرزئی
افغان صدر کے بھائی احمد ولی کرزئیتصویر: dpa
احمد ولی کرزئی کو آج قندھار میں اُن کے اپنے گھر پر اُنہی کے ایک قابل اعتماد محافظ سردار محمد نے ہلاک کر دیا۔ دارالحکومت کابل میں صدر حامد کرزئی نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ اُن کے چھوٹے بھائی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ حامد کرزئی نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں تاہم یہ امید ظاہر کی کہ افغان قوم کے مصائب ایک نہ ایک روز ضرور ختم ہوں گے۔ سردار محمد ایک سینئر باڈی گارڈ تھا اور گزشتہ دَس سال سے کرزئی خاندان کے لیے کام کر رہا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ احمد ولی کرزئی کے سر اور سینے میں گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ دیگر محافظوں نے اُسی وقت فائرنگ کر کے حملہ آور سردار محمد کو بھی ہلاک کر دیا۔
اسی دوران طالبان نے ولی کرزئی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسے تقریباً ایک عشرے سے جاری جنگ میں ’اپنی بڑی کامیابیوں‘ میں سے ایک‘ قرار دیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان یوسف احمدی نے کہا کہ اُن کے گروپ نے احمد ولی کرزئی کو قتل کرنے کا کام حال ہی میں ایک گن مین کو سونپا تھا۔
احمد ولی کرزئی کا قتل ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب صدر حامد کرزئی کابل میں مختصر دورے پر گئے ہوئے فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔
ولی کرزئی قندھار کی صوبائی کونسل کے صدر تھے اور اُنہیں منشیات کے غیر قانونی کاروبار کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکیورٹی فرموں کے کاروبار میں ناجائز پیسہ بنانے کے الزامات کے باعث افغانستان میں ایک انتہائی متنازعہ شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔
احمد ولی کرزئی افغانستان کی طاقتور اور متنازعہ ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھے
احمد ولی کرزئی افغانستان کی طاقتور اور متنازعہ ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھےتصویر: AP
احمد ولی کرزئی امریکی شہر شکاگو میں ایک ریستوراں میں کام کرتے تھے اور 2001ء میں افغانستان لوٹنے کے بعد سے وہ بتدریج قندھار کی طاقتور ترین شخصیت بنتے چلے گئے، یہاں تک کہ اُنہیں ’کنگ آف قندھار‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے احمد ولی کرزئی کہا کرتے تھے:’’میری ذمہ داریوں کی نوعیت عوام اور حکومت کے درمیان ایک پُل کی سی ہے، عوام کے معاملات پر بحث مباحثہ کرنا اور اُن کے مسائل کو حل کرنا، یہ ہے میرا کام۔‘‘
تاہم جہاں احمد ولی کرزئی خود کو عوام اور ریاست کے درمیان ایک پُل قرار دیتے تھے، وہاں اُن کے ناقدین اُنہیں انتہائی خود غرض اور بدعنوان ہونے کا الزام دیتے تھے۔ بیرونی ممالک احمد ولی کرزئی کو ایک مؤثر عنصر قرار دیتے ہوئے اُن کی تعریف کرتے تھے۔
قندھار کے صوبائی دارالحکومت کے میئر غلام نبی حامدی نے احمد ولی کرزئی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا:’’قندھار کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے احمد ولی کرزئی جیسی شخصیت ملی ہے۔ وہ مختلف قبائل کے درمیان توازن رکھتے ہیں۔‘‘
تاہم ناقدین کہتے تھے کہ احمد ولی کرزئی نے طاقت اپنی پسند کے چند قبائل میں تقسیم کر رکھی ہے، جو اس طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے حریفوں کو ختم کرنے میں مصروف ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ولی کرزئی کے قتل کے بعد قندھار میں طاقت کا ایک خطرناک خلاء پیدا ہو گیا ہے اور جنوبی افغانستان میں صدر حامد کرزئی کا اثر و رسوخ بھی اب محدود ہو کر رہ جائے گا۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: ندیم گِل
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں