1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کا طالبان کے خلاف یک طرفہ سیزفائر کا اعلان

7 جون 2018

افغان صدر اشرف غنی نے ستائیس رمضان سے ایک ہفتے کے لیے طالبان کے خلاف عسکری کارروائیاں نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فائر بندی کا یہ اعلان یک طرفہ طور پر کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2z4kt
Afghanistan Ashraf Ghani
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand

کابل میں افغان صدارتی دفتر کی جانب سے آج سات جون بروز جمعرات جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ستائیس رمضان سے عید کی چھٹیوں تک (یعنی بارہ تا انیس جون) کے ہفتے کے دوران ملکی فوجیں افغان طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گی۔ بیان میں تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ یک طرفہ سیز فائر کے اس فیصلے میں القاعدہ اور داعش کو شامل نہیں کیا گیا۔

طالبان کی جانب سے اس اعلان سے متعلق ابھی تک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ حالیہ برسوں کے دوران طالبان نے افغانستان کے کئی علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ میں بتدریج اضافہ کیا ہے اور اب وہ قریب ہر روز ہی افغان سکیورٹی فورسز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

صدر غنی نے اپنے اس بیان میں افغانستان کے اہم مذہبی رہنماؤں کے جارے کردہ ایک فتوے کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے امن مذاکرات کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ افغان علما کے اس اجلاس کے مقام کے قریب ایک خود کش حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں سات افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔

طالبان نے بھی اس فتوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی افواج کے خلاف لڑائی جائز ہے۔

امریکا اور نیٹو میں اپنا عسکری مشن سن 2014 میں ختم کر دیا تھا تاہم اب بھی ہزاروں امریکی فوجی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت کے لیے افغان سرزمین پر موجود ہیں۔

گزشتہ ماہ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان امن مذاکرات میں دلچسپی دکھا رہے ہیں اور اس ضمن میں افغان قیادت میں ہی مذاکراتی عمل شروع ہو چکا ہے۔ تاہم اس دوران افغانستان میں طالبان جنگجو افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ش ح / ع ب (اے پی)