1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین کے حقوق کولاحق خطرات

ڈومنگوئیز گابریئل/ کشور مصطفیٰ21 مارچ 2014

گزشتہ بارہ برسوں کے دوران ایک اہم ترقی یہ آئی کہ افغانستان کے آئین میں مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق کو لازمی قرار دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1BSRp
تصویر: picture-alliance/dpa

دوہزار ایک میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے اب تک بلاشبہ خواتین کے حقوق کی صورتحال میں بہتری آئی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے تشدد کے شکار اس معاشرے میں اس خوف نے جنم لیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان عورتوں کو میسر حقوق پھر سے چھن جائیں گے۔

ماہرین اس شبے کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، امریکا کے قبضے سے لے کر اب تک خواتین نے جو سیاسی حقوق حاصل کیے ہیں، انہیں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد پھر سے سلب کر لیا جائے گا۔ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران ایک اہم ترقی یہ آئی کہ افغانستان کے آئین میں مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق کو لازمی قرار دیا گیا۔ خواتین کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے خصوصی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں تعیلم حاصل کرنے والی نوجوان لڑکیوں کی تعداد 2.8 ملین سے تجاوز کر چُکی ہے جبکہ افغانستان کی نیشنل اسمبلی کے اراکین میں 28 فیصد خواتین شامل ہیں۔ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت میں لڑکیوں کے اسکول جانے پر ممانعت تھی، خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کی نگرانی کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور انہیں جبری طور پر اپنے سروں اور چہرے کہ برقعے سے ڈھانکنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

Amina Hassani, afghanische Fotografin aus der Provinz Bamiyan
افغان لڑکیوں اور خواتین کی زندگی اب بھی بہت مشکل ہےتصویر: Amina Hassani

نظریہ بمقابل فعل

افغان صدر حامد کرزئی کو خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں کے ضمن میں بڑی داد و تحسین ملی ہے۔ خاص طور سے معاشرے میں خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن CEDAW پر دستخط اور 2009 ء میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے اپنے قانون EVAW وضع کرنے کے عمل کو بہت سراہا گیا۔ ان قوانین کے تحت لڑکیوں کی جبری اور اُن کی کم عمری کی شادی، دوطرفہ تنازعات کے حل کے لیے خواتین کو بیچنے اور خریدنے کے عمل، عصمت دری اور خواتین کو زد و کوب کرنے جیسے لاتعداد دیگر فرسودہ رواج کو جرم قرار دیا گیا تھا۔

قانونی فریم ورک میں خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی ان کوششوں میں کامیابی کے باوجود افغان حکومت پر اس بارے میں تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ان قوانین کا اطلاق نہایت سست روی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر ناوی پلے نے گزشتہ دسمبر کی آٹھ تاریخ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ EVAW کا نفاذ بہت سست رو اور غیر مساوی طریقے سے ہو رہا ہے اور پولیس اب بھی خواتین کے خلاف تشدد اور انہیں نقصان پہنچانے جیسے جرائم پر قانونی پابندی عائد کرنے میں ہچکچا رہی ہے اور وکلاء اور عدالتیں ان خواتین کے تحفظ میں نہایت سست روی کا شکار نظر آ رہی ہیں۔

Amina Hassani, afghanische Fotografin aus der Provinz Bamiyan
افغان خواتین مختلف شعبوں میں آگے آنے کی کوشش کر رہی ہیںتصویر: DW/N. Behzad

پولیس کی ناقص کوششیں

ناقدین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے خواتین زیادہ سے زیادہ انصاف کا تقاضا کر رہی ہیں، ویسے ویسے پولیس اور استغاثہ جرائم کے خلاف قانونی ایکشن لینے کی بجائے مسائل کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ساری کوو افغانستان اینلسٹ نیٹ ورک سے منسلک انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق امور کی ماہر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی روک تھام میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ’ بدعنوان اور سیاست کی شکار عدلیہ‘ ہے۔ ان الزامات کے باوجود افغانستان کے قانون سازوں نے حال ہی میں ایک ایسا ’کرمنل کوڈ‘ جاری کیا جو مؤثر طریقے سے مبینہ مجرموں کے خلاف رشتہ داروں کی گواہی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اسے ناقدین " anti-women bill" قرار دے رہے ہیں۔ اس پر عالمی سطح پر مچنے والے شور اور انتباہ کے سامنے آنے کے بعد صدر کرزئی نے اس مجوزہ قانون میں تبدیلی کا حکم نامہ جاری کیا۔

تشدد وبائی سطح پر

اقوام متحدہ کی جنسی مساوات اور خواتین کے حقوق کی ایجنسی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر Phumzile Mlambo-Ngcuka کے مطابق افغانستان میں خواتین اب بھی معاشرے کا سب سے پسماندہ اور استحصال کا شکار طبقہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’افغان خواتین اب بھی معاشرے کی عام ثقافتی فرسودہ روایات کا شکار ہیں۔ کم سِنی کی شادیوں اور عام زندگی سے کٹ کر بنیادی حقوق سے محروم ان عورتیں کو نہ تو تعلیم کا حق حاصل ہے ، نہ ہی روزگار کی منڈی اور سیاسی میدان میں شمولیت کے مواقع۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتیوں کا پھیلاؤ کم و بیش وبا کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ عالمی ادارے کے اندازوں کے مطابق اس ملک میں کسی نا کسی جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی، سماجی یا اقتصادی تشدد کے تجربے سے گزرنے والی خواتین کی شرح 87.2 فیصد ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں خواتین کو ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنانے کے رجحان میں تیزی آئی ہے، خاص طور سے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائض خواتین کو حملوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔

junge afghanische Frau
افغان بچیوں کو بھی پڑھنے کا شوق ہےتصویر: DW/Sian Griffiths

تبدیلی کا ایک امکان

پانچ اپریل 2014 ء کے مجوزہ صدارتی انتخابات بہت سے مبصرین کی رائے میں افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے صدارتی منصب پر فائز حامد کرزئی کو آئینی طور پر تیسری بار صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

مجوزہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے گیارہ امیدواروں سے انسانی حقوق اور خواتین کے مسائل کو ملکی پالیسی کی اولین ترجیحات میں سے ایک بنانے کے ضمن میں کیا بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جانی چاہییں؟ ایک کھلا سوال ہے۔ واشنگٹن میں قائم ’ووڈرو ویلسن سینٹر فار انٹرنیشنل اسکالرز‘ سے منسلک ایک ماہر میشائل کوگلمن اس بارے میں ایک شدید خطرے سے خبردار کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد اس امر کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ طالبان کابل حکومت کا تختہ الٹنے کی اپنی کوششوں میں غیر معمولی تیزی لائیں گے۔

جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں خواتین اور سول سوسائٹی کو درپیش سنگین مسائل اور بڑے چیلنجز کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام ہی کو کرنا چاہیے۔