1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ اور اوباما کے مسائل: بات کیسے آگے بڑھے؟

16 اکتوبر 2009

امریکی صدر باراک اوباما کو ان دنوں ایک کڑے سوال کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ اب افغانستان میں بات آگے کیسے بڑھے گی؟ اِس بارے میں صلاح و مشورہ اب کوئی پانچ ہفتوں سے جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/K8hr
تصویر: AP

اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس میں ایک اور اعلیٰ سطحی اجلاس ہونے والا ہے، جو اپنی نوعیت کا چھٹا اجلاس ہو گا۔ اوباما کے مشیروں کی آراء ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ اُس کے ہمسایہ ملک پاکستان میں بھی حالات بہت ہی نازُک ہیں۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کا امکان ہے تو پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی نے خوف ہراس پیھلا رکھا ہے۔ اِس مشکل صورتِ حال میں اوباما ایک درست حکمتِ عملی کی تلاش میں ہیں۔

USA Afghanistan Dänemark Treffen Barack Obama und General Stanley McChrystal Flughafen Kopenhagen
جنرل مک کرسٹل اور صدر اوباماتصویر: AP

جب کبھی بھی باراک اوباما سے افغانستان میں اُن کی حکمتِ عملی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو اُن کے چہرہ خاص طور پر تاثرات سے عاری ہو جاتا ہے اور پھر وہ اِس طرح کے جوابات دیتے ہیں: ’’ہمارا سب سے بڑا ہدف بدستور یہ ہے کہ ہم القاعدہ اور اُس کے اُن انتہا پسند حلیفوں کو تلاش کریں اور اُنہیں ختم کریں، جو امریکہ اور اُس کے حلیفوں پر حملے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ساتھ ہی وہ پورے خطے بشمول پاکستان کے استحکام کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہدف حاصل کیسے ہو گا، اِس بارے میں اوباما ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ وہ اپنے مشیروں کے ساتھ بند کمرے میں ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن ان ملاقاتوں کے شرکاء کے مطابق وہاں بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ خود اوباما کیا چاہتےہیں۔ کیا وہ واقعی مزید چالیس ہزار یا اس سے بھی زیادہ اضافی فوجی بھیجنے کے لئے تیار ہیں، جیسا کہ افغانستان میں اُن کے اعلٰی ترین امریکی کمانڈر میک کرسٹل چاہتے ہیں؟ یا اُن کا جھکاؤ اپنے نائب جو بائیڈن کے موقِف کی جانب ہے، جو نئے فوجی بھیجنا نہیں چاہتے بلکہ القاعدہ کے جنگجوؤں کو تاک کر نشانہ بنانے کے حق میں ہیں؟ اب تک صرف اتنا واضح ہو رہا ہے کہ اوباما عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ ’’مجھے یقین ہے کہ آنے والے ہفتوں میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچ جائے گا۔‘‘

Deutschland Flash-Galerie Woche 39 Afghanistan Bundeswehr
تصویر: AP

اوباما ٹھوس بات کی طرف نہیں آ رہے، گو واشنگٹن میں کچھ حلقوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے امریکہ کی سلامتی کی پالیسیوں پر لکھنے والے صحافی کولِن کلارک کے خیال میں یہ بات قابلِ فہم ہے کہ اوباما اِس سلسلے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہتے۔ ’’اگر آدمی یہ سوچے کہ اوباما کا فوجی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اُن کے بہت سے ڈیموکریٹک حامی اُن کی طرف سے کسی فیصلے کو خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو پھر درست یہی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کے لئے ضروری وقت لیں اور ہر ایک کا موقف سنیں۔‘‘

حکمتِ عملی جو بھی ہو، ایسی ضرور ہونی چاہیے کہ اُس کے نتیجے میں افغانستان ا ور پاکستان میں واقعی استحکام آئے۔ امریکہ میں بڑے پیمانے پر یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ ایٹمی طاقت کا حامل پاکستان انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ اوباما دستوں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ کریں تو ری پبلکن پارٹی کے ارکان اُن کی حمایت کریں گے لیکن ڈیموکریٹس اِس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گے۔ امریکی عوام کی اکثریت بھی اب مزید افغانستان جنگ کی حامی نہیں ہے۔ افغانستان میں اِس وقت اڑسٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور کچھ عرصے سے وہاں عراق کے مقابلے میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ بار بار یہ سننے میں آ رہا ہے کہ افغانستان اوباما کے لئے ویت نام ثابت ہو گا۔ اور صدر یہی نہیں چاہتے۔ صحافی کولِن کلارک کہتے ہیں: ’’صدر اوباما اور وزیر دفاع گیٹس کے لئے موجودہ آئینی مدت کا یہ اہم ترین فیصلہ ہو سکتا ہے۔‘‘

بہت سے حلقوں کے خیال میں اوباما کوئی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں، جس میں دونوں کیمپوں کی رائے کو پیشِ نظر رکھا گیا ہو۔ ایسے میں وہ ممکنہ طور پر بیس ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

تبصرہ: گریگور ہوپے (روم) / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق