1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغان تنازعے کے پر امن حل کا یہی وقت ہے‘

24 مارچ 2011

سابق سفارتکاروں کے ایک بین الاقوامی دستے نے امریکی انتظامیہ اور کابل حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اب مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کے حل کے لیے کوششیں تیز تر کردیں۔

https://p.dw.com/p/10gZm
تصویر: AP

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی مندوب لخدر براہیمی اور امریکی دفتر خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدیدار تھوماس پیکرنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ طاقت کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کر رہا ہے حالانکہ موجودہ وقت مصالحتی عمل کے لیے انتہائی مناسب ہے۔

غیر سرکاری تنظیم سینچری فاؤنڈیشن کے تحت Afghanistan: Negoatiating Peace کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے ، جس میں تین شخصیات کو افغان امن عمل کے لیے معاون تجویز کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان، لخدر براہیمی اور سویڈش سفارتکار سٹیفن ڈی مستورا کے نام لیے جارہے ہیں۔ یہ مجوزہ معاون شخصیات افغان اور غیر ملکیوں کے مابین مذاکرات کی نگرانی کریں گی۔

Friedens-Dschirga in Kabul Afghanistan Hamid Karzai Flash-Galerie
افغان صدر امن عمل سے متعلق ایک کانفرنس کے موقع پر، فائل فوٹوتصویر: AP

سٹیفن ڈی مستورا کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ وہ پہلے ہی افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے امن عمل کی شروعات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے پڑوسی ممالک و امریکہ کے سفیروں اور اس تنازعے کے بعض دیگر فریقوں کے مابین کابل میں متعدد ملاقاتیں منعقد کروائی ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں چھپے مضمون میں لخدر براہیمی اور تھوماس پیکرنگ نے لکھا ہے، ’ ہمیں یقین ہے کہ موجودہ وقت مصالحتی عمل شروع کرنے لیے موضوع ترین ہے، جبکہ امریکی فوج کی تعداد اپنے عروج پر ہے۔‘ ان کا یہ موقف افغانستان پر امریکی حملے کے لگ بھگ دس سال بعد سامنے آیا ہے۔

سینچری فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر تھوماس پیکرنگ نے کہا کہ اگرچہ حالیہ عرصے میں اتحادی افواج کو کامیابیاں مل رہی ہیں مگر مجموعی طور پر یہ جنگ جمود کا شکار ہے۔ عرب دنیا میں شورش کی نئی لہر کے سبب بھی امریکی حکومت بظاہر افغانستان کی جنگ کے فوری حل کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کہہ چکی ہیں کہ افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سویلین سرگرمیوں میں بھی تیزی لائی جائے گی اور اس جنگ زدہ ریاست کی معیشت کو استوار کیا جائے گا، ’ ہمیں اور افغانوں کو یقین ہے کہ فوجی و سویلین کوششوں سے جو سلامتی اور حکومتی عملداری حاصل ہوئی ہے اس سے اچھا موقع پیدا ہوا ہے کہ مصالحتی عمل کے بارے میں سنجیدہ ہوا جائے۔‘

Deutschland Petersberg Konferenz Brahimi, Karsai und Schröder
سابق جرمن چانسلر شروئڈر، افغان صدر حامد کرزئی اور لخدر براہیمی، فائل فوٹوتصویر: AP

ان کے بقول یہ مصالحتی عمل افغان حکومت کی نگرانی میں ہوگا، جسے خطے کے ممالک میں سرگرم سفارتکاری اور امریکی تعاون کا سہارا حاصل رہے گا۔

اس تنازعے کے حل میں ظاہری طور پر بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے مکمل طور پر غیر مسلح ہوکر 2004ء کے آئین کے تحت سیاست کرنے کا اعلان نہیں کیا جارہا جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کے مطالبے پر فوری طور پر افغانستان سے انخلاء نہیں چاہتے۔ سینچری فاؤنڈیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مذاکراتی عمل شروع کرنے میں جتنی دیر کی جائے گی آخر میں قیام امن کی اتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

رپورٹ شادی خان سیف

ادارت عاطف بلوچ